دو ہزار سال یہودیوں نے عیسائی یورپ کے انتہائی جبر کے تحت اذیت ناک زندگی گزاری تھی۔ ان کے علاقے اور محلے علیحدہ تھے، جہاں کسی بھی قسم کی شہری سہولیات مثلا پانی، بجلی، سیوریج، سکول اور ہسپتال وغیرہ میسر نہیں ہوتے تھے۔ ان تعفن زدہ اور بدبو دار علاقوں کو گھیٹو کہا جاتا تھا۔ یہودیوں کو مخصوص لباس پہننے پر مجبور کیا جاتا اور شہر میں آنے کے لئے وہ اپنے گلے میں ایک تختی لٹکاتے جس پر لکھا ہوتا میں یہودی ہوں لیکن یہودیوں کی اس بدترین زندگی کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بحیثیت مجموعی ایک مظلوم قوم کے طور پر ہمیشہ متحد رہے اور یوں ان کے ہاں ایک قسم کی نسلی خالصیت بھی قائم رہی، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کا مذہب ہمیشہ ان کی زندگیوں کا حصہ رہا۔ یورپ میں سیکولر ازم، لبرل ازم اور الحاد کی ہوائیں تو انقلابِ فرانس کے ساتھ ہی چلنا شروع ہو گئی تھیں، مگر مغربی معاشرے کو بدلنے اور چرچ کو مکمل طور پر سیاست سے بے دخل ہونے میں تقریبا ایک صدی کا عرصہ لگا اور 1900 تک آتے آتے، یورپ کے تمام ممالک سے مذہب کو سیاسی اور معاشرتی زندگی سے تقریبا دیس نکالا مل گیا۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم کے اس خطرے کو سب سے پہلے یہودیوں نے بھانپا اور اسے بحیثیت قوم اپنے لئے ایک بہت بڑے ڈراوئے کے طور پر لیا۔ انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ جس دن یورپ میں رہنے والے نوجوان مذہبی پابندیوں کا کلاوہ اتار پھینکیں گے اور ایک مادر پدر آزاد طرزِ زندگی اختیار کریں گے تو پھر یہودیوں کی یہ علیحدہ آبادیاں ویسی نہیں رہیں گی۔ انہیں عام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے دیا جائے گا اور کوئی ان سے ذِلت آمیز نفرت نہیں کرے گا۔ معاشروں میں گھل مل کر رہنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ، جیسے ہی ایک یہودی بچہ آزاد سیکولر فضائوں میں سانس لینے لگے گا تو وہ اردگرد بسنے والے عیسائیوں سے بھی کہیں زیادہ آزاد اور مذہب مخالف زندگی کا خوگر بن جائے گا، کیونکہ اسے دوہری آزادی مل چکی ہو گی، رہن سہن کی آزادی اور مذہب کی آزادی ۔ یہ تھا وہ ماحول اور خطرات جب یورپ کے یہودی بزرگ ایک دم اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اپنی پوری ملت کو ایک مضبوط مذہبی شکنجے میں جکڑ لیا۔ اس مرحلے کو صہیونیت کا آغاز کہتے ہیں۔ صہیون دراصل اس پہاڑی کا نام ہے جس پر حضرت دائود علیہ السلام کا شہر آباد تھا اور وہاں سے وہ جن و اِنس پر حکمرانی کرتے تھے۔ صہیونیت تحریک کی بنیاد اس امید پر رکھی گئی تھی کہ یہودیوں کو اس وعدے پر منظم کرنا ہے جو ان کی مذہبی کتابوں میں درج تھا، کہ قیامت سے پہلے ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب حضرت دائود علیہ السلام کی نسل سے ایک مسیحا اترے گا، یروشلم میں برباد ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرے گا اور صہیون کی پہاڑی پر تختِ دائودی پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ یہودی سمجھتے تھے کہ اگر وہ یورپ کی سیکولر اور لبرل فضائوں میں بکھر گئے تو پھر ان کا وجود تک باقی نہیں رہے گا اور ان کا یہ خواب ان سے بہت دور ہو جائے گا۔ انہیں یورپ میں دھڑا دھڑ بند ہوتے گرجا گھروں اور مذہب سے بیگانہ ہوتے ہوئے عیسائیوں کی حالتِ زار کا بخوبی اندازہ تھا۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے، دنیا بھر کے یہودیوں کے اہم ترین رہنما، سوئٹزر لینڈ کے شہر بیسل میں 1897 میں جمع ہوئے، جہاں ان کی تقریبا 27 میٹنگیں ہوئیں اور وہیں انہوں نے آئندہ کیلئے اپنا لائحہ عمل مرتب کیا جسے عرفِ عام میں صہیونیت کے بزرگوں کے پروٹوکولز کہتے ہیں۔ یہ پروٹوکولز تقریبا پانچ سال تک خفیہ رہے اور پھر 1903 میں انہیں روس کی ایک اخبار “Zanamia” نے چھاپ دیا۔ یہ پروٹوکولز نہیں ہیں، بلکہ دنیا کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام پر چھانے اور پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا ایک مفصل طریقِ کار ہے۔ اس میں اہم ترین بات یہ تحریر کی گئی تھی کہ ہم عیسائیت کو سیکولر ازم اور سوشلزم کے ذریعے برباد کریں گے اور آزاد خیال یورپ پر سیاسی طور پر قبضہ حاصل کریں گے اور اسے میڈیا اور معاشی اجارہ داری کے ذریعے کنٹرول کریں گے۔ لیکن عیسائیوں اور سیکولر، لبرل لوگوں کے بالکل برعکس یہودیوں کو اپنے مسیحا کے آنے تک مکمل طور پر مذہب کی پابندی کرنا ہو گی۔ یہی پابندی ہی انہیں بحیثیت قوم اکٹھا رکھے گی اور انہیں عالمی حکومت کے قیام کیلئے ایک بے پناہ قوت فراہم کرے گی۔ تورات اور تالمود کے بعد پروٹوکولز ایک ایسی کتاب ہے جو ابھی بھی ہر یہودی کیلئے ایک رہنما کا درجہ رکھتی ہے۔ جو یہودی صہیونیت سے انکار بھی کرتے ہوں، وہ بھی اپنے یہودی خاندان کو سیکولر اور لبرل ہونے سے بچانے کے اس نظریے سے بالکل متفق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سو سال گزرنے کے بعد، میڈیا کی چکا چوند، سیکولر علوم کی بھر مار اور جدید یونیورسٹیوں میں تعلیم کے باوجود یہودی گھرانوں کی اکثریت کٹر مذہبی ہے۔ وہ اپنی تمام عبادات و رسومات باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ نیو یارک کے علاقے بروکلین میں یہودی لڑکیوں کے سکول جا کر دیکھیں، ان کی دیواریں اتنی بلند ہیں کہ کوئی ان میں دور سے بھی جھانک نہ سکے۔ ہفتے کو ان کے مذہب کے مطابق کاروبار کی بندش ہوتی ہے تو اس دن ان کے گھروں تک میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ ہر یہودی کوشے (Koshe) یعنی حلال گوشت کھاتا ہے۔ عورتیں چہرے کو نقاب سے ڈھانپتی ہیں اور مرد سوٹ پر بھی اپنی مخصوص ٹوپی پہنتے ہیں یا پھر لمبی داڑھی کے ساتھ بالوں کی بل کھاتی لٹیں لہراتے ہیں۔ ایک یہودی گھر کے ماحول کا اندازہ یوٹیوب کی اس مقبول ویڈیو سے کیا جا سکتا ہے جس میں امریکی ٹی وی کی سب سے مشہور اینکر اوپرا وینفری (Oprah Winfrey) ایک یہودی گھرانے میں ان کے تہوار والے دن جاتی ہے، جہاں اردگرد کے خاندان بھی مدعو ہیں۔ اس ہجوم سے وہ پہلا سوال یہ کرتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی ٹیلی ویژن دیکھا ہے، وہ کہتے ہیں، نہیں، پھر کہتی ہے پوری زندگی میں بھی کبھی نہیں، جواب ملتا ہے، نہیں، گھر کی ایک یہودی عورت وہاں موجود ہر چھوٹے بڑے سے سوال کرتی ہے، تم سے کوئی ہے جو ٹیلی ویژن دیکھتا ہے، سب بیک زبان ہو کر کہتے ہیں، کوئی نہیں۔ اوپرا، پھر بچوں سے سوال کرتی ہے، تمہیں معلوم ہے کہ مکی مائوس (Micky Mouse) کون ہے، پھر بڑے بڑے گلوکاروں اور موسیقاروں کا نام لیتی ہے لیکن سب گھر والے کہتے ہیں کہ ہم ا ن سب کو نہیں جانتے۔ پھر وہ یہ سوال کرتی ہے کہ کیا تم میں سے کوئی ڈیٹ (Date)پر جاتا یا جاتی ہے، جواب نفی میں ملتا ہے۔ بچے کہتے ہیں ہم اس طرح کی زندگی میں بہت سارے دبائو (Pressure) سے آزاد رہتے ہیں۔ ایسا ماحول صرف ایک یہودی گھر میں ہی نہیں، بلکہ ان کے اکثر گھرانوں میں ملتا ہے۔ یہ ہے وہ مذہبی ماحول جس میں یہ ایک یہودی بچہ پروان چڑھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ہی مقصد کی لگن ہوتی ہے کہ اس نے آنے والے مسیحا کی قوم کا ہراول دستہ بننا ہے۔ اسے عبادت گاہوں، خاندانی محفلوں، سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بار بار یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ یہودیوں سے ایلی یعنی خداوند نے وعدہ کیا ہے وہ ہمیں اس دنیا کی حکمرانی عطا کرے گا، مگر اس حکمرانی کے حصول کیلئے ہر یہودی کو جدوجہد کرنا ہو گی۔ مذہب وہ قوتِ متحرکہ (Driving Force) ہے جو ہر یہودی کو بہترین سائنسدان، شاندار مصنف اور کامیاب صحافی، اینکر اور معاشی نابغہ بنائے رکھتی ہے۔ یہ ہے اس سوال کا جواب کہ یہودیوں میں سب سے زیادہ نوبل انعام حاصل کرنے والے کیوں ہوتے ہیں۔ یہودی اگر مذہب کو مضبوطی سے نہ تھامتے تو آج یہ ایک کروڑ سینتالیس لاکھ یہودی، دنیا بھر کے سات ارب انسانوں کے سمندر میں فنا ہو جاتے۔ (ختم شد)
٭٭٭