سیالکوٹ فیکٹری میں سری لنکن منیجر کا بہیمانہ قتل ،میت کی توہین اور لاش سوزی نے ایک مرتبہ پھر پوری دنیا میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کے سر ندامت سے جھکا دئیے ہیں۔اسلام جو زمانہ جاہلیت کے قتل عام کو رکوانے آیا تھا اور امن و سلامتی کا مذہب تھا اور ہے! کی ساکھ کو اتنا نقصان غیروں نے نہیں پہنچایا جتنا خود ساختہ مذہبی ٹھیکیداروں نے پہنچایا ہے۔ایک دن میں بات کھل کر سامنے آ گئی کہ تنازعہ شخصی تھا اور قابلیت کی بنیاد پر مہمان منیجر اس عہدے پر پہنچا تھا۔غافل مزدوروں کو اس دیانت دار آفیسر کی سختی برداشت نہ تھی ۔ اس کا بدلہ لینے کے لئے نہ فقط اس مہمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ لاش کو نذر آتش کر دیا ۔اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔قاتلوں کے متضاد کلپس خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے قول فعل میں تضاد ہے۔ظاہری طور پر تاثر یہ دیا گیا کہ اس قتل کے پیچھے تحریک لبیک کا ہاتھ ہے جبکہ تحریک لبیک نے اس کی تردید کر دی اگر سری لنکن منیجر نے امام حسین کے پاک نام کی توہین کی تھی تو قاتل ٹی وی انٹرویو میں لبیک یا حسین کہتے ۔ ان کا لبیک کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔
اس سے قبل مملکت خداداد میں خود میرے ضلع خوشاب کے شہر قائدآباد میں ایک بینک منیجر کو سکیورٹی گارڈ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جبکہ وہ بھی ذاتی تنازعہ تھا۔ نہ بینک منیجر گستاخ رسول تھا اورنہ قاتل عاشق رسول تھا۔کیا میڈیا کو یہ بات یاد نہیں؟ کہ ایک مولوی نے خود قرآنی اوراق جلا کر ایک چھوٹی مسیحی بچی کو قتل کر دیا تھا۔لاہور ، خانیوال وغیرہ میں مسیحی برادری کی جو بستیاں جلائی گئیں کیا سارے مقتولوں نے توہین رسالت کی تھی ؟ اور توہین رسالت کا اگر کوئی مرتکب بھی ہو تو اس کی سزا عدالت کو دینے کا حق ہے ۔متوازی حکومتیں بنا کر شخصی کٹہروں میں کھڑا کرنا کسی بھی مہذب معاشرہ میں مرسوم نہیں ہے۔مجھے حکومت پاکستان پر بھی افسوس ہے جس نے کبھی مجرم کو سزا نہیں دلوائی۔کیا حضور کے دور میں یہودیوں اور عیسائیوں کی لاشیں یوں جلائی جاتی تھیں؟دورِ پیغمبر کے میدان ہائے جنگ میں ایسی سختی مروج نہ تھی جو آج پاکستان میں نافذ العمل ہے۔دور پیغمبر کے بعد مسلمانوں کی لاشوں کی بے حرمتی اور جلانے کا جو رواج شروع ہوا تھااس کی اسلام نے کبھی تائید نہیں کی ۔ہم پوری دنیا میں بین المذاہب رواداری کو فروغ دینے میں لگے ہیں اور یہ نادان لڑکے بالے اسلام کی نائو ڈبونے کے درپے ہیں۔
اگر ان حرکتوں کو پاکستان میں سختی سے نہ روکا گیا تو ہمارا ملک بلکہ مذہب بھی مزید بدنام ہوگا۔پاکستان کی عدالتوں میں غیر مسلموں اور مسلمانوں کو ناجائز قتل کے جتنے مجرموں کے مقدمات تعطل کا شکار ہیں انہیں فورا نمٹایا جائے اور سیالکوٹ فیکٹری کے حالیہ واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔
پاکستان میں ایسا ماحول بن گیاہے کہ جب کوئی اٹھے اور مذہب کے نام پر جان لے ۔اس لئے کہ سب کو یقین ہے سزا تو ملنی نہیں ہے۔ میں ان جذباتی نیم ملائوں سے سوال کرتا ہوں کہ باقی اسلامی ممالک میں ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ؟کیا پاکستان میں کوئی نیا اسلام رائج ہے؟حالیہ حکومت پاکستان بلکہ ساری حکومتوں کی ڈھیلی پالیسیوں کے سبب ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ جب مضبوط منتخب حکومت مٹھی بھر دہشتوں کو مذاکرات کی کال دے گی تو انفرادی قاتل سوچیں گے کہ اگر 80 ہزار بے گناہ مسلمانوں کے قاتلوں کو پیسیج (امان نامہ)مل سکتا ہے تو اکا دکا غیر مسلموں کو مارنے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑ ے گی؟
دین اسلام محبت وپیار، عفو و درگزر، سلامتی و رواداری، خیر خواہی و احترام کا مذہب ہے۔ دہشت گردی ،مار دھاڑ، جلاو گھیراو،نفرت و عناد کا درس نہیں دیتا۔ یہ لا تثرِیب علیم الیوم والے سید الانبیا کا مذہب ہے۔
ہم سب مسلمان عشق مصطفی سے سرشار ہیں اور گستاخی شان رسالتۖ کو جرم عظیم سمجھتے ہیں۔خاندان رسول بالخصوص امام حسین کے ساتھ والہانہ عقیدت مسلمان ہی نہیں بلکہ اصحاب رسول اور امہات المومنین بھی رکھتی تھیں۔ ماضی قریب میں کچھ افراد نے توہین سیدہ فاطمہ،توہین مولا علی، توہین امام حسین کی حالانکہ و ظاہری طور پر کلمہ گو تھے۔عاشقان اولاد رسول نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ قانون کے حوالے کیا۔
میری حکومت پاکستان سے مودبانہ درخواست ہے کہ وفاقی لیول پر ایک وزارت قائم کی جائے جس کا کام صرف بین المذاہب ہم آہنگی، غلط فہمیوں کے ازالہ جات ، افہام و تفہیم بلکہ قدر انسانیت کی بنیاد پر انسانوں میں انس و محبت بانٹنے کا ہو۔ خواہ اس کا نام وزات امن رکھا جائے یا وزارت رواداری یا وزارت حب انسانی یا وزارت ہمدردری وغیرہ۔
حضور کریم کا ارشاد ہے ،مہمان کا احترام کرو اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔کیا یہی احترام مہمان ہے ؟اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور دین اسلام کی روح کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭