دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیںجنہوں نے اپنی جرات وبہادری اور لازوال قربانیوں سے ایسی تاریخ رقم کی کہ قیامت تک لوگ ان کے کارناموں کو بھلا نہ سکیں گے انہی تابندہ لوگوں میں ایک شخصیت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہے جن کے لئے سرکار دو عالم نے اللہ سے دعا مانگی ،اے اللہ عمر خطاب سے اسلام کو طاقت عطا فرمااور پھر یوں ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا۔تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔سرکاردو عالم نے ابوحفص آپ کی کیفیت اور فاروق اعظم لقب عطا فرمایا۔بچپن سے سخت جان تھے پہلوانی اور شہسواری ضرب المثل تھی۔آپ کا ایمان لانا مسلمانوں کی طاقت کا سبب بنا۔سیدنا صدیق اکبر کے وصال کے بعد خلافت کا بوجھ اٹھایا۔اور اپنی حکومت کو پسماندہ طبقات کی فلاح اور عدل ومساوات کے روشن خطوط پر استوار کیا حضرت عمر بن خطاب کے دور حکومت کا عدل وانصاف آج بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے خود عدل وانصاف کی مثال بنے پھر رعایا میں عدل وانصاف کو قائم کیا۔عدل وانصاف کی مشہور مثال وہ ہے جو آپ نے فرمایا تھا۔دریاء فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھوک سے مر جائے۔تو مجھے ڈر ہے قیامت کے دن مجھ سے سوال کیا جائے گا۔تیری حکومت میں ایک کتابھوکا کیوں مر گیا تھا۔واقعی اللہ تعالیٰ نے ان کے زمانے میں مسلمانوں کو خوشحالی عطا فرمائی کوئی شخص ان کی حکومت میں بھوکا نہیں سوتا تھا۔سب کو یکساں انصاف میسر تھا۔مسلمان ہو یا غیر مسلم سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔عام آدمی حضرت عمر رضی اللہ سے کہیں بہتر کھانا کھاتا جب آپ منبر پر تشریف فرما ہونے لگے۔تو وہاں بیٹھے جہاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے قدم ہوتے تھے۔صحابہ کرام نے عرض کی حضور اوپر تشریف رکھیں۔فرمایا مجھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پائوں میں جگہ مل گئی مجھے یہی کافی ہے۔ان کے وصال کے بعد عدل کا ایک عجیب وغریب واقعہ صحابہ کرام نے دیکھا۔ایک چرواہا دور دراز سے مدینہ پاک میں آیا اور کہنے لگا حضرت عمر فوت ہوگئے ہیں۔لوگوں نے کہا آپ کو کیسے پتہ چلا۔کہنے لگا جب تک وہ زندہ تھے۔میری بھیڑیں بے خوف وخطہ چرتی تھیں۔کوئی درندہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔مگر آج ریوڑ لے کر نکلا ایک بھیڑیا نمودار ہوا اور بھیڑ کا بچہ اٹھا کر بھاگ گیا۔میں سمجھ گیا آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے انسان تو انسان جانور بھی ان کے عدل وانصاف کی وجہ سے کسی جانور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ہماری مشکلات کا حل آج بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قائم کردہ مثالی عدل وانصاف میں ہے۔شرط یہی ہے کہ پہلے ہمارے حاکم اپنے اوپر عدل وانصاف نافذ کریں پھر مخلوق خدا کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا قومیں عدل وانصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں۔26ذوالحج آپ پر حملہ ہوا۔یکم محرم الحرام کو اللہ کے سپرد کیا گیا اور سرکار کے قدموں میں ہمیشہ کے لئے جگہ مل گئی رضی الہ عنہ ورضو عنہ۔