چیف جسٹس احمد علی شیخ نے15مارچ2017ء بطور23(تیئسیویں) چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا وہ ایک سیدھی سادھے انسان اور اچھی شہریت کے حامل جج ہیں جو آئین اور مروجہ قوانین کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔انکی ولادت3اکتوبر1961ء میں لاڑکانہ میں ہوئی تھی ،وہیں اسکول اور کالج پڑھتے رہے البتہ قانون کی ڈگری انہوں نے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور سے حاصل کی۔1990میں وکالت شروع کی ، 1993میں سندھ ہائیکورٹ کے وکیل بن گئے اور1994-95میں ڈسٹرکٹ بار لاڑکانہ کے انتخابات میں نائب صدر اور سیکرٹری جنرل کے عہدوں کے لئے بھی منتخب ہوئے۔25سینیٹر2009ء میں ایڈیشنل جج سندھ ہائیکورٹ کی تعیناتی ہوئی۔ 2011ء میں انہیں مستقل جج سندھ ہائیکورٹ مقرر کردیاگیااور پھر 2017 میں انہیں سندھ ہائیکورٹ کا جج مقرر کر دیاگیا تب سے وہ اسی عہدہ پرکام کر رہے ہیں۔وہ سیاست سے پاک خالصتاً آئین اور مروجہ قوانین کی رو سے فیصلے کرتے ہیں۔اور کوئی سیاسی جماعت ان سے خوش نہیں رہتی کیونکہ وہ میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں۔کسی کے دبائو میں نہیں آتے ایسے جج صاحبانن ہمارے عدالتی نظام میں ناپسندیدہ قرار دے دیئے جاتے ہیں۔جہاں پر جسٹس نسیم حسن شاہ اور ارشاد احمد خان جیسے چاپلوس جج ہوںجنہوں نے اپنے درباری رویوں کی وجہ سے عدالتی نظام کو جتنا برباد ورسوا کیا ہے جس کی قیمت آج تک پاکستان کی عوام چکا رہی ہے جنہیں انصاف نہیں ملتا ہے اور اگر ملتا بھی ہے تو اتنی دیر سے کہ اس کی کوئی افادیت نہیں رہتی انہیں اور ان جیسے اور کئی اور ججوں نے طاقتور کے خلاف فیصلے دینے سے اجتناب کرکے کمزوروں پر اپنے سخت فیصلے نافذ کرکے اپنی ججی چکمائی ہے اور آج ہمارا عدالتی نظام اتنا کمزور پڑ گیا ہے کہ اس کے لئے آزادانہ اور منصفانہ فیصلے کرنا مشکل سے مشکل بنتا جارہا ہے۔آزادانہ سوچ کے حامل جج صاحبان کو قاضی عیٰسی بنا دیا جاتا ہے۔جنہیں حضرت عیٰسی کی صلیب پر چڑھا کر فرعونوں کو خوش کیا جاتا ہے۔آج پھرجسٹس علی احمد شیخ کو سپریم کورٹ کا جج بنانے میں پس وپیش برتی جارہی ہے کیا قصور ہے انکا کہ وہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے جج ہیں۔حق اور سچ کے فیصلے کرنے والے جج ہیں کسی سفارش یا دبائو کو بالائے طاق رکھ کر حق وانصاف کے فیصلے کرنے والے جج ہیں۔جج کو یہی کچھ کرنا چاہئے کہ وہ صرف اور صرف قانون کے تحت فیصلے کرے۔لیکن کیا کیجئے کہ طاقتور حلقہ تو قانون کو اپنے گھر کی باندی سمجھے بیٹھے ہیں اور وہ اپنی مرضی اور منشا کے فیصلے چاہتے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سینیارٹی اور تقرریوں کا معیار موجود ہوتے ہوئے بھی موجودہ حکومت کے وزیر قانون فروغ نسیم نے جسٹس علی احمد شیخ کی سپریم کورٹ میں تقرری کی مخالفت کرتے ہوئے انکے ایک جونیئر جج کیلئے سفارش کی جسکی مخالفت جسٹس قاضی عیٰسی(جوکہ جوڈیشل کانسل کے ممبر بھی ہیں)نے کی ۔اس یادہانی کے ساتھ کہ سب سے پہلے جس ہائیکورٹ یا صوبہ سے سپریم کورٹ کے جج کی تقرری ہونی ہو تو سب سے پہلے اس چیف جسٹس کا نام کا حق بنتا ہے یہاں اگر وہ نہ آنا چاہے تو پھر دوسرے نمبر پر آنے والے جج پر غور ہوسکے گا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ آج سپریم کورٹ میں کوئی سندھی بولنے والا جج نہیں ہے جبکہ باقی صوبوں کے لوگوں کی نمائندگی موجود ہے اب اگر میرٹ پر ایک ایسے جج کا نام آرہا ہے جسکا تعلق اندرون سندھ سے ہے تواس پر اعتراض کرنا سندھ کے لوگوں کو ناحق انکی اعلیٰ ترین عدالت میں نمائندگی سے محروم کرنا ہے یہیں پر کہانی ختم نہیں ہوتی ،زیادتی پر زیادتی ہے کہ اب چیف جسٹس صاحب کو منانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا عہدہ بھی چھوڑنے پر رضا مند ہوجائیں انہیں شریعت کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا جائیگا۔انہیں اب موجودہ عہدے سے بھی محروم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں کیونکہ غالباً سندھ میں گورنر راج کے منصوبے پر غور کیا جارہا ہے۔کشمیر کے بعد خان صاحب سندھ کو بھی فتح کرکے جدید دور کے محمد بن قاسم بننے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ ایمپائر بہادر بھی انکے اس منصوبہ کی حمایت کر رہے ہیں۔خدا کے واسطے سندھ کو دوسرا مشرقی پاکستان نہ بنائیں اور آپ لوگ شیخ چلی کی طرح جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے کاٹیں نہیں طاقتور ادارے نوجوانوں کو اغواء کرکے تشدد کر رہے ہیں۔انکی لاشیں تک واپسی نہیں کررہے۔گمشدہ لوگوں کی فہرستیں طویل سے طویل تر ہو رہی ہیں ۔عدالتوں میں جائز نمائندگی بھی چھین کر انصاف تک پہنچ کے راستے میں کانٹے مت بچھائیں پھر آپ سندھ کے لوگوں کو بھی بلوچوں کی طرح ”غدار”بنا دیں گے۔ملک کی جڑیں کھوکھلی مت کریں باز آجائیں۔
٭٭٭