غزہ(فلسطین)پر حماس کی آڑ میں وہاں کے شہریوں پر اسرائیل کی دہشت انگیز بمباری کا آٹھواں دن ہے۔210ویں صدی کے ٹیکنالوجی کے اس دور میں جبکہ ہر کسی کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے اور کروڑوں ٹی وی چینل یہ سب کچھ دکھا رہے ہیں۔دنیا بھر کی بڑی طاقتیں، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور چائنا خاموش تماشائی بنے انسانوں اور انکے گھروں کو ایک چھوٹے سے شیطان ملک کے عزائم کو دیکھ رہے ہیں۔ایٹم بم کے موجد الرٹ آئن اسٹائن نے اسی وقت کے لئے کہا تھا”دنیا ایک خطرناک جگہ ہے انکی وجہ سے نہیں جو اسے خطرناک اور مظلوم بنا رہے ہیںبلکہ انکی وجہ سے جو یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیںاور یہ ہم ہیں جو آواز بھی نہیں اُٹھا سکتے۔مسلم ممالک کے بے حس اور بے ضمیر حکمران ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں۔”ہم فلسطین، شام اور عراق بوسنیا، روانڈہ، برما کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسرائیل اور امریکہ نے بہت پہلے سے اسکی تیاری کر رکھی ہے کہ پہلے مشرق وسطیٰ کے ان غلام حکمرانوں سے اسرائیل کو تسلیم کرایا اور سعودی عرب کے شہزادے کو پیار کی جھپی دے کر خاموش کرا دیا۔ایسا جیسے اس کا کوئی وجود نہ ہو۔پاکستان ترکی، انڈونیشیا، ملیشیا صرف بیان بازی تک رہے جسے سب کا مائی باپ اسرائیل ہو۔کاش دنیا بھر کے عوام اور حکمران یہ پڑھ لیتے جو آئن اسٹائن نے کہا تھا”میں اس دن سے ڈرتا ہوں۔جب ٹیکنالوجی انسانوں کو ملنے جلنے اور گفتگو کی قدرتی فطرت کو چھین لے گی اور دنیا پر احمقوں کا راج ہوگا۔ایک اور بات اس نے کہی تھی”خیال رہے البرٹ آئن اسٹائن یہودی تھا۔اور یہودیوں کے لئے کہا تھا اس نے”میرے لئے انتہائی دکھ کی بات ہوگی۔کہ صیہونی(ZIONIST)فلسطینیوں کے ساتھ وہ کریں جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا”اسکی بات پچھلے کئی سالوں سے سچ ہوچکی ہے۔امریکہ کے سیاستدانوں میں واحد سینیٹر جو دوبار صدارتی دوڑ میں ناکام رہا ہے(یا کرایا گیا ہے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے)کا کہنا تھا سوشل میڈیا پر”چار بلین ڈالر کی نتھن یاہو کو ہر سال دی جانے والی امداد کے عیوض ہم ہاتھ نہیں جوڑینگے جو خود غیر جمہوری اور متعصب کردادر کا حامی ہے۔لکھتے چلیں برکی سینڈر جن کا یہ بیان ہے یہودی ہیں اسکے مقابلے میں امریکہ کے غیر جمہوری اور عوام دشمن نیتن یاہو کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے سیاستدانوں نے طوطے کی مانند ایک ہی جملہ کہا ہے۔”اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ہے”یہ ہی بیان جوبائیڈن کا ہے جو اپنی سیاست کے شروع میں ہی ان کے گرویدہ بن گئے تھے۔ٹرمپ اور بائیڈن کا فرق امریکیوں کو معلوم ہوگیا ہوگا ایک بظاہر رستم اور دوسرا چھپا رستم ہے۔نیتن یاہو اپنی وزارت کو بچانے کے لئے یہ شرمناک حرکت کر رہا ہے۔جب کہ اس پر اسرائیل میں بدعنوانی کے الزامات کا مقدمہ بھی جاری ہے۔پہلے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں پر پابندی یعنی چھیڑ چھاڑ شروع کی اور اسکی آڑ میں اپنا پہلے سے طے شدہ پلان شروع کردیا اور جب حماس نے پھلجڑیاں اور پھینکیں تو میزائل کی بوچھاڑ کر دی نتیجے میں اونچی اونچی رہائشی عمارتوں کو زمین بوس کردیااور شہریوں کا قتل عام مچایا۔یہ دوسری بات ہے بین الاقوامی کورٹ میں جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلے گا۔لیکن امریکہ بچا لے گا جس کا تازہ ثبوت اقوام متحدہ کے بے حس اور بے مقصد اجلاس میں جو بغیر کسی فیصلے کے ملتوی ہوا ہے۔اس کے اوپر سکیورٹی کونسل ہے جو میزوں کے نیچے چھپے سرگوشیاں کر رہے ہیں ،یہ بات واضح ہوچکی ہے سب اس انتظار میں ہیں کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوجائے وہ اپنا ٹارگٹ پورا کر لے جس میں فلسطینیوں کو مارنا اور بھگانا شامل ہے تاکہ اس زمین پر قبضہ ہوسکے۔کیا اب صیحونی اور یہودی نہیں ہیں بلکہ انکی کھال پہن کر دنیا کے سامنے مظلومیت کا رونا روتے ہیں۔اندازہ کیجئے انہوں نے امریکہ کی32کروڑ کی آبادی کو بھی اپنی کارپوریشنز کے ذریعے یرغمال بنایا ہوا ہے تو یہاں کے کانگریس مین اور سینیٹرز انکے آگے ہاتھ جوڑے کیوں کھڑے ہیں کہ میڈیا پر ان کا قبضہ ہے اور اسکی سپورٹ کے بغیر وہ انتخاب میں جیت نہیں سکتے۔امریکیوں کو اس حصار سے نکلنا اور ٹیکنالوجی کے سامراجیوں کے جنگل سے آزاد ہونا ہوگا جو امریکہ کے صدر کو بھی خاموش کرا دیتا ہے۔پچھلے دنوں ہم نے ایک تصویر کے ساتھ جس میں ایک اسرائیلی پولیس ایک دس گیارہ سال کے بچے کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھے بیٹھا ہے۔بچہ تڑپ رہا ہے کی پوسٹ ڈالی۔جو انہوں نے سینسر کرکے بتایا کہ یہ جذبات کو مجروح کرتی ہے لہٰذا چھپائی گئی ہے ہمیں کیا اعتراض وہ امریکہ کی شخصی آزادی تقریر کو جو یہاں کا قانون ہے۔کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیںاور ملک دشمن اس طرح ہیں کہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں کچھ نہیں دیتے دوسرے معنوں میں چاروں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ہمارا کہنا ہے ہر کسی کو اسرائیل کی جارحیت اور نہتے انسانوں پر ظلم اور بربریت کے خلاف سوشل میڈیا کو استعمال کرنا چاہئے۔افسوس ہم یہ کرنے سے بھی قاصر ہیںاور اپاہج ہوچکے ہیں حال ہی میں اس میڈیا نے بائیڈن کو شٹ اپ کال دے دی ہے۔بے چارے پہلے سے ہی خاموش ہیں انکی صدارت کا تجزیہ ان معنوں میں کیا ہے۔کہ وہ جمی کارٹر کی مثال ہیں جو معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔یہ درست ہے جب بائیڈن اسرائیل کو اربوں ڈالرز ہر سال ایک فون کال پر دیتے رہیں گے اور پوجھنے والا کوئی نہ ہوگا اور انہی کی تیل کی کمپنیاں بلا کسی وجہ کے پیٹرول پمپ پر کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے قیمتیں بڑھائینگی۔اس صورت میں جب کہ امریکہ پٹرولیم میں خود کفیل ہے اور ضرورت سے زیادہ مقدار میں اس کا مالک ہے۔تو یہ سازش ہی ہے صدر کو بلیک میل کرنے کی کارپوریشن اور میڈیا نے امریکیوں کی زندگی کی خوشیوں کو پامال کیا ہے۔اس کا عام امریکی کو علم نہیں آنے والی نسلوں کو کس قدر مقروض کر دیا ہے اس پر دھیان نہیں اس کے باوجود دنیا بھر میں، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ میں بھی اسرائیل کے مجرمانہ جنگی عزائم اور نتیجے میں جانی اور مالی تباہ کاریوں کے خلاف جلوس نکلے ہیں۔لیکن ان ملکوں کے سربراہاں کا رویہ ایک تھکی ہوئی طوائف کے مانند ہے جس کا دلال اسرائیل ہے۔آخری سطر لکھنے تک، فلسطین پر بمباری جاری تھی۔
٭٭٭