آج کا کالم لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ آغاز کہاں سے اور کس واقعہ سے ہو کہ اب تو وطن عزیز اس حال کو پہنچ گیا ہے جہاں ہر روز کوئی نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، کوئی ایسا واقعہ، سانحہ یا حادثہ سامنے آتا ہے جو انسانیت، معاشرت، حب وطن اور عظمت کے منہ پر نہ صرف زور دار طمانچہ ہوتا ہے بلکہ وطن و نظام مملکت کے طور سے دنیا بھر میں رُسوائی کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے عالمی تاثر کبھی بھی مثبت پیرائے میں سامنے نہیں آیا کبھی اسے روگ اسٹیٹ کہا گیا، کبھی بنانا ریپبلک اور کبھی غیر محفوظ ریاست قرار دے کر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ ہمارے سیاسی، ریاستی و سیکیورٹی معاملات پر اُنگلیاں اُٹھائی جاتی رہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان بیرونی قوتوں کا پروپیگنڈہ ہے جو ہمیں پھلتا پھولتا متحد اور ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی، معاشرتی، تہذیبی و اجتماعی طور پر ایک قوم کا فریضہ اور کردار نبھا رہے ہیں یا اسی شاخ کو جس پر ہم بیٹھے ہوئے ہیں اپنی ہی آری سے کاٹ رہے ہیں۔ سیاست اور صحافت کے طالبعلم کی حیثیت سے اگر میں گزشتہ 20 برسوں کے حالات و واقعات پر نظر ڈالوں تو دنیا کی واحد نیو کلیائی اسلامی جمہوری اور قدرتی و انسانی بہترین وسائل کے حامل ہونیوالی مملکت کے باوجود ہم تنزلی کی راہ پر ہی گامزن ہیں۔ اس عمل میں ریاست سے افراد تک سب ہی شامل ہیں۔
گزشتہ برسوں، مہینوں اور ہفتوں کے حالات، واقعات اور اقدامات سے گریز کرتے ہوئے ہم اگر صرف ہفتۂ رفتہ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہم ریاست، سیاست، مذہب، نظم و سلامتی، اخلاقیات اور جمہوری و آئینی طور پر غلط کردار و خود غرضانہ رویوں اور عمل کے ہی مرتکب ہوئے ہیں، انفرادی و اجتماعی دونوں حوالے سے ایک منفی سلسلہ ہے جو ہر روز ایک نئے شوشے کا موجب بنتاہے اور نہ صرف ہماری منفی سوچ کا عکاس ہے بلکہ عالمی منظر نامہ میں بھی ہماری بدنمائی کا آئینہ دار ہے۔ امن و امان اور انتظامی غیر فعالیت کیو جہ سے ڈاکے، لُوٹ مار، حادثات، حراسگی و قتال کے معاملات اور معصوم جانوں کے ضیاع اور مضروبیت تو اب معمول بن چکے ہیں اور قارئین اس سے آگاہ بھی رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آئینی، قومی و انتظامی ادارے اپنے متعینہ فرائض پر بھرپور توجہ اور خرابیوں کا تدارک اور حالات کی بہتری پر عمل کرنے کے برعکس سیاسی محاذ آرائیوں میں فریق بن کر ملک میں بگڑتے ہوئے حالات کو مزید ابتری کی طرف لے جانے کے محرک بن رہے ہیں۔ اداروں کے درمیان تفریق اور محاذ آرائی نے حالات کو اس حد پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں عوام میں سیاسی انتشار سے بڑھ کر اب مذہبی و علاقائی جنون حتیٰ کہ ذاتی دشمنی تک پہنچ گیا ہے۔
جڑانوالا میں مسیحی برادری اور عبادت گاہوں پر مذہبی جنونیوں کی قیامت خیزی، گھروں اور 19 گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کی شیطانیت کسی فوری یا جذباتی سوچ کے سبب نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کلام ربی اور ارشاد رسالت مآبۖ کے ارشادات کے موجب دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ اسی قدر لازم ہے جس قدر اپنی عبادت گاہوں کا۔ حضرت عیسیٰ کی تکریم بلکہ تمام انبیاء اکرام پر سلامتی و اقرار ہر مسلمان کا جزو ایمان ہے، پھر اس حقیقت کے علم کے باوجود مسیحی کالونی و عیسیٰ نگری پر لبیک یا رسول اللہۖ کا نعرہ لگا کر حملہ کرنے کا مقصد کیا تھا، ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ اس حملے کے پس پردہ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی و انتشاری کیفیت کو مزید بڑھانے کیلئے بُھس میں چنگاری ڈال کر عوام میں پھیلی ہوئی غیر یقینی کو مزید بڑھانا تھا۔ اس حرکت کا اثر یہ ہوا کہ دنیا بھر میں اس غیر انسانی واقعہ پر مذمت و تشویش کی گئی بلکہ مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے پاکستان کا منفی تاثر گیا، کیا یہ امر پاکستان کے حق میں جاتا ہے کہ خصوصاً ایسے وقت پر کہ جب ہم قرآن پاک کی ڈنمارک میں گستاخی پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس واقعہ پر امریکہ سمیت دنیا بھر میں مسیحیوں کا پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف اگر مسیحیوں کا پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف اگر احتجاج یا پُرتشدد واقعات ہوئے تو حالات کس رُخ پر جائیں گے اور کیا اثرات ہونگے۔
اثرات تو اس ٹوئیٹ سے بھی عالمی منظر نامہ پر ہوئے ہیں جو صدر مملکت نے اتوار کے روز بہ حالت مجبوری ترمیمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے حوالے سے جاری کیا۔ صدر مملکت ریاست و مملکت کے آئینی سربراہ ہونے کیساتھ مسلح افواج کے بھی چیف کمانڈر ہیں۔ صدر علوی کے اس ٹوئیٹ سے پاکستان کے استحکام و تسلسل پر بیرونی دنیا و میڈیا خصوصاً بی بی سی اور امریکی و دیگر مغربی چینلز پر تو سوال اُٹھے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مرحلہ کیوں آیا۔ صدر علوی نے اس ٹوئیٹ میں واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے اسٹاف کو دونوں ایکٹ واپس کرنے کی ہدایات کر دی تھیں اور واپس نہ کر کے ان کے اعتبار و اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ میڈیا کے توسط سے یہ بات تو اب سب کے علم میں آچکی ہے کہ اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 75 کے حوالے سے پارلیمان کے جوائنٹ سیشن کیلئے دوبارہ صدر کو بھیجنے کے 10 روز بعد ایکٹ خود بخود نافذ ہوجاتا ہے مگر وزارت قانون کا مؤقف مختلف آیا اور حیرت کی بات ہے کہ اس کیساتھ ہی وزارت قانون کی ویب سائٹ بھی معطل کر دی گئی۔ بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں ایکٹ کے حوالے سے اختلافی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ نافظ العمل ہوا ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی معاملے کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔ دوسری جانب صدر کے پرنسپل سیکرٹری کو ہٹائے جانے کے بعد اس کا مؤقف صدر کے حوالے سے ان کیخلاف ہے۔ واضح نظر آتا ہے کہ یہ بحران طُول پکڑے گا۔ ہمارا قیاس تو یہ ہے کہ یہ سارا کھیل اسٹیبلشمنٹ کے اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد نہ صرف انتخابی مرحلہ کی طوالت کو یقینی بنانا ہے بلکہ عوام کے مقبول ترین رہنما عمران خان اور اس کی جماعت کو سیاسی ایرینا سے خارج کرنا بلکہ نشان عبرت بنانا ہے کہ اپنے مقصد کیلئے یہ کھیل ہر دور میں جاری رہا ہے ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو، نوازشریف حتیٰ کہ اولین شکار حسین شہید سہروردی کوئی بھی نہیں بچ سکا ہے۔ یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ جس سربراہ نے ایسا کیا وہ پھر عزت سے رخصت نہیں ہوا۔ موجودہ سربراہ کی شہرت ہے کہ وہ سیلف میڈ، با اصول اور حافظ قرآن ہے۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وطن میں امن و سالمیت، خوشحالی اور عوام کے سکون زندگی کیلئے اپنے روئیوں اور اقدامات پر نظر ثانی کریں تاکہ تین سال کی مدت تکمیل کے بعد اچھے الفاظ میں یاد کیا جا سکے۔ دلوں میں مخاصمت رکھنا تو ہمارے دین میں بھی منع ہے۔ ملک و عوام کی بہتری، مہنگائی و بیروزگاری کے عفریت سے چھٹکارا اور مضبوط و خوشحال پاکستان ہی عوام کی محبت کا ذریعہ ہے۔ اگر وطن عزیز یونہی کسی نہ کسی شوشے و غیر یقینی کا شکار رہا اور حالات مزید ابتر ہوئے تو عوام کے پیش نظر پیرزادہ قاسم کا یہ شعر ہی رہے گا!
قوم اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
یہ یاد رہے کہ ہر روز نئے شوشے امن کے نقیب نہیں عدم استحکام کا سبب ہی ہوتے ہیں اور بالآخر ملک توڑنے کے حالات پیدا کرتے ہیں۔ خانہ جنگی کسی کیلئے بھی مفید نہیں ہو سکتی ہے۔
٭٭٭