نکاح مشکل کیوں؟

0
45
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین اکرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے چند ہفتے قبل ایک خبر نظر سے گزری اور دماغ میں اٹک سی گئی وہ تھی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شادی کی عمر گزرجانے والی خواتین جن کی تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے اس نازک مسئلے سے متعلق یقینا آپ سب پڑھ چکے ہونگے نہ صرف کنواری عمر رسیدہ خواتین بلکہ معاشرے میں موجود بیوائیں اور مطلقہ خواتین الگ ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور ان کے نکاح میں رکاوٹ اور اس کے اسباب جاننے کی کوشش کرتے ہیں ،اس سے قبل اس معاشرتی مسئلے پر بات ہو یہ ایک کہانی جو حقیقت پر مبنی ہے انٹرنیٹ پر کچھ گروپس میں وائرل ہوئی یہ پڑھیں پھر بات کریں گے اور اسکی گہرائی سمجھیں گے ۔کہانی کچھ اس طرح ہے ایک لڑکی جو شادی کی شرعی و فطری خواہش کے ساتھ رشتے کے انتظار میں ہے اسکی زبانی سنیں جو مندرجہ زیل ہے حلال رشتے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہوتی عورت کی فریاد
میری عمر اس وقت 35 سال ہے میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے ۔خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا ۔عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئی ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کیا ہو۔
میرے دلی جذبات کبھی اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ میں راتوں میں چیخ چیخ کر آسمانوں سر پر اٹھائوں اور دھاڑیں مار مار کر والدین سے کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح لیکن حیا اور شرم کی وجہ سے چپ ہوجاتی ہوں۔میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش بن گئی ہوں ۔
شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمجولیوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اُٹھتی ہیں۔ یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں ۔کبھی خیال آتا ہے کہ گھر سے بھاگ کر کسی کیساتھ منہ کالا کرکے واپس آکر والدین کے سامنے کھڑی ہوجائوں کہ لو اب اچھی طرح نبھا اپنے سات پشتوں کا رسم،کبھی خیال آتا ہے ہے کہ گھر سے بھاگ جائوں اور کسی سے کہوں مجھے بیوی بنالو لیکن پھر خیال آتا ہے اگر کسی برُے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا ۔میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا ۔اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سورہے ہوتے ہیں بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کررہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں اکیلی ہی جانتی ہوں۔اے حاکمِ وقت! تو بھی سن لے فاروق اعظم کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ تھا ۔
اگر خدا کا ڈر اور قیامت میں حساب دینے کا ڈر نہ ہوتا تو آج رات اِس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی،مطلب میں کسی کے ساتھ کچھ کررہی ہوتی، فاروق اعظم نے جب اشعار سنے تو تڑپ اُٹھے اور ہر شوہر کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے ،اے حاکمِ وقت، اے میرے ابا حضور،اے میرے ملک کے مفتی اعظم،اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب ،
اے میرے شہر کے پیر صاحب میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں ؟کون میرے درد کو سمجھے گا؟میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا ۔اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لئے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا ۔اے لوگو مجھے بتا ئوکوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند ۔اللہ پاک نوالے منہ میں ڈلوائے کیا ؟؟؟
یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کیلئے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا۔یہ تھی اس لڑکی کی کہانی اور اس کے جذبات سے بھرپور قصور اس بچی کا نہیں بلکہ اس معاشرے کا جہاں ہر کوء اپنا حق مانگ رہا ہے اور اس کو محروم رکھا جارہا ہے یہ ذمینی حقائق ہیں اولاد جوان ہوگء تو اس کی شادی بیاہ کا انتظام کریں دنیا داری میں وہ اگر ایک بار حرام کی جانب مائل ہوگء تو پھر واپسی ناممکن ہے خدارا اس لڑکی کی آواز کو سن کر سمجھنے کی کوشش کریں۔
ہر اسلامی ملک اور معاشرہ نکاح ثانی اور کثیر الزوجی کو آسان بنائے ایسے کالے قانون جو ایک سے ذیادہ ازواج کی اجازت نہ دیتے ہوں ان کو نافذ نہ کرنے دیا جائے تو ہی اس مسئلے کا حل ممکن ہے خواتین بھی باعمل مسلمان بنیں اور شوھر کی دوسری شادی ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں اور اگر اس کے حقوق پورے ہورہے ہیں تو شوھروں کے ساتھ دوسری بیوی کی موجودگی میں رہنا سیکھیں جہاں مردوں سے سوال ہوگا کہ بیوی کو حقوق دیئے وہیں عورتوں سے بھی سوال ہوگا تم رکاوٹ کیوں بنیں کیوں شوھر کو باندھ کر رکھا امید ہے اس مسئلے پر آپ قارئین غور فرمائیں گے باقی بحث اگلے ہفتے ان شا اللہ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here