باہمی دشمنی، قوم کا زوال!!!

0
62
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم سیاسی محاذ آرائی یا وطن دشمنی میں پاکستان کے روز بروز سیاسی حالات، اداروں میں مخاصمت اور تقسیم کیساتھ خصوصاً بلوچستان میں ہونیوالی دہشتگردی اور ہلاکتوں، شہادتوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی،خوشحالی اور وطن کے بیٹوں کے تحفظ کا واحد راستہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی یکجائی میں ہی ہے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے تمام ذمہ دار،سیاسی، ادارتی و مقتدر ٹھیکہ داروں کے پیش نظر دہشتگردی، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے خاتمے کی کوئی فکر نہیں، بلکہ غالباً ان کا مفاد اس امرمیں ہی ہے کہ حالات ابتری و انتشار سے دوچار رہیں، عوام مہنگائی و شورشوں اور زندگی گزارنے کی جدوجہد میں بندھے رہیں کہ کسمپرسی کے سبب کسی تحریک یا احتجاج کا حصہ نہ بن سکیں۔ مشہور محاورہ ہے کہ ”پارے کو جتنا دبائو گے وہ اتنا ہی اُبھر کر سامنے آئے گا۔ بلوچستان میں گزشتہ ہفتے کے خونی واقعے، اس محاورے کی ہی اہم مثال ہے۔ 26 اگست کو موسیٰ خیل اور بیلہ میں دہشتگردی کے واقعات میں 60 سے زیادہ افراد کو ان کی شناخت پر مار دیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں، مزید یہ کہ بیلہ میں دہشتگردی کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ وہ پڑھی لکھی خاتون ہے جو گمشدہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے اسلام آباد میں مظاہروں کی قائد تھی اور جس کے بارے میں صداقت ہو چکی ہے کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کو لیڈ کرتی ہے اور یہ کمیٹی بی ایل اے اور دوسری قوم پرست تنظیموں کی (جنہیں را اور موساد کی اعانت و سرپرستی حاصل ہے) کی پراکسی ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بلوچستان میں قیام پاکستان کے وقت سے ہی اپنی خود مختاری اور حقوق کے حوالے سے ہی شورش اور باغیانہ سلسلہ جاری رہا اور اس کے محرکین قبائلی سردار اور قائدین ہی رہے اور عوام کا اس میں کوئی کردار نہیں رہا۔ ہر دور میں مارشل لائی اور سول حکومتوں نے قبائلی سرداروں کو کبھی سختی، کبھی مراعات سے حالات کو ڈیل کیا لیکن بلوچ عوام کے حقوق اور وسائل کے حصول و فوائد پر توجہ نہ دی۔ نتیجتاً یہ ہوا کہ عوام میں رد عمل بڑھتا گیا اور ان کے اس رد عمل کا فائدہ پاکستان دشمن قوتوں نے اٹھاتے ہوئے ان حالات کو مزید گھمبیر کرنے کیلئے ہر طرح سے سپورٹ کیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دہشتگردانہ سلسلوں کا معاملہ آج کی پڑھی لکھی نسل کے ہاتھوںمیں آچکا ہے اور بیرونی دشمن ہر طرح ان کے معاون و مدد گار ہیں۔ سی پیک اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے سبب بلوچستان کے حوالے سے بھارت اور دیگر عالمی قوتوں کو یہ گوارا نہیں لہٰذا وہ سب کچھ کیا جا رہا ہے جو پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں رکاوٹ بن سکے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ریاست، حکومت اور مقتدرہ و امن و امان کے ذمہ داران سانپ گزر گیا لکیر پیٹنے تک ہی محدود رہیں گے اور دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے دعوئوں پر زور دیتے ہوئے محافظ بیٹوں اور سویلینز کی شہادتیں دیکھتے رہیں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا دعویٰ یہ ٹولہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے کسی مسخرے کی بڑھک تو ہو سکتا ہے کسی صوبائی حکمران کا دعویٰ ہر گز نہیں۔ ایپکس کمیٹی کا اجلاس بغیر عوام کے مقبول ترین رہنما اور بلوچستان کے حقیقی رہنمائوں کے بغیر نشستند، گفتند، برخواستند کے سواء کچھ بھی نہیں، ہماری اس تحریر کے وقت بھی علاقے کے ڈپٹی کمشنر کی ہلاکت کی خبر آئی ہے گویا دہشتگردی کی خبر تمام چینلز پر چل رہی ہے اور جاری ہے۔
بات دراصل یہی ہے کہ دو بڑوں کی ذاتی مخاصمت میں اب بھی صورتحال صرف ایک نکتہ پرمرتکز ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کو سیاسی منظر نامہ سے دور کر دیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے مابین خلیج اب اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ ایک جانب سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا تماشہ کہ عمران یا پی ٹی آئی کیخلاف اکثریتی فیصلہ آسکے، دوسری جانب جسٹس طارق جہانگیری کی لاء ڈگری کی معطلی کہ وہ اسلام آباد کے انتخابی نتائج کے ٹربیونل میں ہونے کے علاوہ ان 6 ججز میں شامل تھے جنہوںنے دبائو کیخلاف خط لکھا تھا۔ بات یہیں تک نہیں ہے، آئے دن فیض حمید کے کورٹ مارشل ٹرائل سے متعلق حوالوں سے عمران کو ملوث کرنے اور فوجی عدالت و کسٹڈی سے متعلق خبروں کا انبار لگانے کیساتھ جیل میں سختیاں بڑھانے اور مشکوک افراد و گاڑیوں کی نقل و حرکت کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ تنازعتی صورتحال کے سرے اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ عمران کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں چانسلر کی امیدواری کیخلاف دی میل اور گارڈین میں زہریلے مضامین شائع کرائے جا رہے ہیں۔ اس دشمنی کی فضاء میں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے چلتی حکومت کی منافقت کا عالم یہ ہے کہ ایک جانب زرداری اور شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر کے اور الیکشن کمیشن ٹربیونلز کے ذریعے ن لیگ کی عددی تعداد میں اضافے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف نوازشریف مذاکرات کا سندیسہ دے رہے ہیں مگر ان کے وزیر دفاع مذاکرات کیلئے 9 مئی کے حوالے سے پیشگی مذاکرات کی شرط لگا رہے ہیں۔ اس دو رخی کو کپتان اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا ہے۔
ہم اپنے متعدد کالموںمیں بارہا باہمی مفاہمت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے پاکستان اور عوام کی سالمیت، خوشحالی اور امن و امان کیلئے یکجائی کیلئے عرض کرتے رہے ہیں مگرموجودہ حالات اس حقیقت کی غماضی کر رہے ہیں کہ سیاسی ابتری میں کوئی بہتری اس وقت تک نہیں آسکتی ہے جب تک ذاتی عناد سے پہلو تہی نہ کی جائے اور ملک کے وسیع تر مفاد اور عوام کی اُمنگوں و خواہشات کے مطابق اقدامات و کار سلطنت کو یقینی بنایا جائے۔ خود غرضی، مفاداتی و دشمنانہ کردار قوموں کی عزت و سالمیت کا نہیں ذلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے۔
”رہے حالات گر یونہی ہمارے نہ ہوگی اپنی داستاں تک”
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here