پاکستان اور عالمی بینک کی سفارشات!!!

0
42

عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجے بن حسین نے پاکستان کے معاشی ماڈل کو ناکارہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی کے فوائد حکمران اشرافیہ تک محدود ہو چکے ہیں۔کنٹری ڈائریکٹر عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ہم عصر ، ساتھی ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے، ملک میں غربت دوبارہ سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں نے بری طرح متاثر کیا ہے لیکن زراعت، توانائی اور آبی پالیسیسوں میں اس بابت کوئی اقدامات آگے نہیں بڑھ رہے۔ناجے بن حسین نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے، نجی شراکت میں اضافہ کرنے اور چھوٹے کاروبار کے لئے ماحول بہتر بنانے پر توجہ دے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ عوام کے حقوق اور ریاست کی ترقی کی بات کرنے والے طبقات نے فوائد کا منہ اپنی جیب کی طرف موڑ رکھا ہے۔افلاس کے مارے لوگوں کی نمائندگی کے لئے ارب پتی لوگ مسلط ہیں،سیاسی و انتخابی عمل مہنگا بنا دیا گیا ہے۔وہی کاروبار نشو نما پاتے ہیں جو بالائی طبقات کا منافع بڑھاتے ہیں، چھوٹے کاروبار شروع ہوتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔اسی لئے پاکستان میں مڈل کلاس بھارت اور بنگلہ دیش کی طرح ترقی نہیں کر سکی۔ 1940 کی دہائی کے آخر میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کی معیشت بنیادی طور پر زرعی تھی۔ زراعت نے 1947 میں ملک کی جی ڈی پی میں 53 فیصد حصہ ڈالا اور 1949-50 میں اس سے قدرے زیادہ 53.2 فیصد۔ اس عرصے کے دوران، پاکستان کی آبادی تقریبا 30 ملین تھی، جس میں تقریبا 6 ملین شہری علاقوں میں رہتے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تقریبا 65% افرادی قوت زراعت سے وابستہ تھی۔ جس نے برآمدات میں 99.2% حصہ ڈالا اور تقریبا 90% زرمبادلہ کمایا۔1950 کی دہائی نے پاکستان میں منصوبہ بند ترقی کا آغاز کیا۔ 1951 میں کولمبو پلان کے آغاز کے بعد، پاکستان نے پانچ سالہ منصوبوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو 1955 سے 1998 تک محیط تھا۔ ان منصوبوں کے ساتھ ساتھ، ایک دس سالہ تناظر کا منصوبہ متعارف کرایا گیا، جس کی تکمیل تین سالہ ترقیاتی منصوبے سے کی گئی۔1950 کی دہائی کے دوران، پاکستان نے درآمدی متبادل صنعت کاری کی پالیسی پر عمل کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کوریائی جنگ (1950-1953) کے دوران، پاکستان کے عوامی اور ابھرتے ہوئے نجی شعبوں کو کافی تجارتی منافع سے فائدہ ہوا۔ ان منافعوں کو صنعتی سرمائے میں منتقل کیا گیا، جس سے ملک کی صنعت کاری کے عمل کو ہوا ملی۔ امریکی امداد کی خاطر خواہ آمد نے 1960 کی دہائی کے دوران مضبوط اقتصادی ترقی کی سہولت فراہم کی۔1960 کی دہائی میں پاکستان نے 5 فیصد سالانہ کی متاثر کن زرعی ترقی کی شرح حاصل کی۔ یہ آبی وسائل میں خاطر خواہ سرمایہ کاری، کسانوں کے لیے مراعات میں اضافہ، زرعی پیداوار کے عمل کی میکانائزیشن، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے زیادہ استعمال اور سبز انقلاب کا حصہ بننے والی چاول اور گندم کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی وسیع کاشت کے ذریعے ممکن ہوا۔1970 کی دہائی کے اوائل میں معاشی منظر نامے کی نشاندہی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی تفاوت سے ہوئی، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان نے علیحدگی کا اعلان کیا ۔مارشل لا حکام نے چیلنجنگ میکرو اکنامک حالات کے درمیان، سوشلسٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو بااختیار بنایا۔ 1971-72 کے دوران غربت کے واقعات میں 55 فیصد تک اضافہ ہوا۔اکتوبر 1973 میں تیل کی عالمی قیمتوں کے جھٹکے، 1974 سے 1977 تک شدید عالمی کساد بازاری، 1974-75 میں کپاس کی فصل کی ناکامی، فصلوں کو متاثر کرنے والے کیڑوں کے حملے اور 1973، 1974 میں بڑے پیمانے پر سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو درآمدی لاگت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا۔ صنعتوں کو قومیانے کا عمل صنعت کاری میں رکاوٹ کا باعث بنا۔سن2000 کی دہائی میں پاکستان کو کئی اقتصادی چیلنجوں اور تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 2001 میں انتظامی کمیٹی نے بڑیسرکاری قرضوں کی نشاندہی ایک اہم عنصر کے طور پر کی جس سے شرح نمو میں 4 فیصد سے بھی کم سالانہ کمی واقع ہوئی۔ 2000 کی دہائی میں شرح نمو میں ابتدائی بہتری کے باوجود میکرو اکنامک بحرانوں کا تسلسل دیکھا گیا۔ 2004-05 میں پاکستان نے 8.6 فیصد کی شرح نمو حاصل کی لیکن اس کے بعد کے برسوں میں شرح نمو میں کمی، زیادہ مہنگائی، توانائی کے بحران اور بگڑتے ہوئے مالیاتی اور ادائیگیوں کے توازن کی صورت نمایاں تھی۔ 2005-06 میں غربت میں22.3 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ 2002 میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 7.8 فیصد ہوگئی لیکن بعد میں 2008 تک کم ہوکر 5 فیصد ہوگئی۔ بالغ خواندگی 2007-08 میں 55% رہی جو تعلیم اور شرح خواندگی کو بہتر بنانے کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔پاکستان کو 2008 میں معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا.2009-2010 میں افراط زر کے مطابق شرح نمو 4.1% تک پہنچ گئی۔ زرعی شعبے نے 2 فیصد کی شرح نمو حاصل کی۔مارچ 2010 تک، کل سرکاری قرضہ 8,160 ارب روپے تھا۔ پاکستان اس عرصے کے دوران ایک اہم ساختی تبدیلی سے گزرا۔ زراعت کا جی ڈی پی حصہ 1947 میں 53 فیصد سے کم ہو کر 2010 میں 21.2 فیصد ہو گیا۔حکومتیں آتی اور جاتی ہیں،ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں کے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن اصل کام کسی کو یاد نہیں کہ جب تک مڈل کلاس پاوں پر کھڑی نہ ہو گی ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here