نناوے کا پھیر!!!

0
479
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج آپ کی خدمت میں ایک سبق آموز کہانی پیش کررہا ہوں ہر چند کہ یہ حکایت کہانی کئی ایک آن لائن بزم پر شیئر ہوچکی ہے لیکن ایک بڑی گہری داناء کی بات اور نصیحت لیے موجود ہے انسا تھوڑا وقت نکال کر اپنی زندگی سادہ اصولوں سے بہتر بنا سکتا ہے اب آپ اس کہانی کو پڑھئیے اس کے آخر میں مختصر تجزیہ ہوگا۔ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا : یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں ؟ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے؟ وزیر نے کہا : بادشاہ سلامت ، اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھئے
بادشاہ نے پوچھا : اچھا ، یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے ؟ وزیر نے کہا : بادشاہ سلامت ، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر ، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیئے سو درہم ہدیہ ہے ، رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر ادھر اْدھر چھپ جائیں اور تماشہ دیکھ لیجیئے ۔بادشاہ نے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جیسے وزیر نے سمجھایا تھا ، ویسے ہی کیا ، صراحی رکھنے کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا ۔ دستک سن کر اندر سے خادم نکلا ، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا ، درہم گِنے تو ننانوے نکلے جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا ، خادم نے سوچا یقیناََ ایک درہم کہیں باہر گرا ہوگا، خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اوردرہم کی تلاش شروع کر دی۔ان کی ساری رات اسی تلاش میں گزر گئی ، خادم کا غصہ اور بے چینی دیکھنے لائق تھی۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کو سخت سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔کچھ رات صبر اور باقی کی رات بَک بَک اور جھَک جَھک میں گزری ۔ دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کیلئے گیا تو اس کا مزاج مکدر ، آنکھوں سے جگراتے ، کام سے جھنجھلاہٹ ، شکل پر افسردگی عیاں تھی ،بادشاہ سمجھ چکا تھا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ہے ۔لوگ ان 99 نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتیاور وہ ایک نعمت بھی اللہ کی کسی حکمت کی وجہ سے رْکی ہوئی ہوتی ہے جسے عطا کر دینا اللہ کیلئے بڑا کام نہیں ہوا کرتا۔لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کیلئے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم مزاجوں کو مکدر کر کے جیتے ہیں ۔ حاصل ہو جانے والی ننانوے نعمتوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکر گزار بندے بن کر رہیئے،تو کیسی لگی آپ کو یہ حکایت ؟؟ اگر قارئین غور فرمائیں تو یہ ہر گھر کی کہانی ہے ہم میں سے اکثریت ان سے بیس یا تیس برس قبل کس حال میں تھی اور وطن عزیز میں حالات خراب ہوئے اور اچھے مستقبل کی تلاش میں ہم لوگ ہجرت کرکے دیار غیر آبسے اس ہجرت نے ہم سے بہت کچھ چھنا بھی اور بہت کچھ دیا بھی لیکن ہم پریشان کل بھی تھے اور فکر مند آج بھی ہیں !!!
آخر اس کی وجہ وہ ایک فیصد تو نہیں جس کا زکر اس حکایت میں کیا گیا ہے جن لوگوں کو پردیس چھوڑ آئے ہمارے پیارے اکثر وہ نہ رہے اور انتقال کرگئے نوجوان کچھ بہت زیادہ آگے نکل گئے اور کچھ لوگ ترقی نہ کر پائے بلکہ باہر جانے کے چکر میں ایجنٹوں سے لٹ گئے اور ماں باپ کا سرمایہ بھی ڈبو کر سگے بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور مال دنیا پر رشتے تک توڑ بیٹھے کیونکہ مجھ جیسے عام انسان لکھاری کا تعلق ہر طبقہ سے پڑتا ہے عام انسان سے لیکر بیوپاری تک اور بیوروکریٹ تک سب رابطے میں آتے ہیں اور ملاقات بھی ہوتی ہے ان کی زندگیاں مطالعہ کیں اور غور کیا تو یہ ٩٩ کا قانون سب کی زندگی میں کم و بیش ملا ضرور بہتر ہو کہ ہم رب کی عطا پر شکر گزار ہوں اور اپنے اعمال درست رکھیں بس باقی کامیابی اللہ کی طرف سے اور نشیب و فراز تو زندگی کا حصہ ہے شائد یہ بات انسان سمجھ جائے۔ملتے ہیں اگلے ہفتے، آپ سے کسی نئے موضوع پر بات ہوگی خیر اندیش
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here