پانچویں قسط
سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے١٣سال دس ماہ کی قلیل عمر میں تمام علوم نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل فرمائی اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔ دستار فضلیت کے دن ہی آپ کے والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان علیہ الرحمہ نے اپنے لائق وفائق فرزندارجمند کو مسند افتا کی زینت بنا دیا۔ چودہ سال کی عمر میں آپ نے رضاعت سے متعلق استفتاء کا انتہائی شافی جواب قلم بند فرما کر دنیا کے سامنے اپنا پہلا فتویٰ دلائل وبراہین سے مزین پیش فرمایا۔ چودہ سال کی عمر سے آپ کی فتویٰ نویسی کا سلسلہ ایسا چل پڑا کہ بفضلہ تعالیٰ چند سالوں میں آپ نے ”العطایا النبویہ فی فتاویٰ الرضویہ” کی شکل میں بارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل علوم وفنون کا بے بہا خزانہ قوم کو عطا فرمایا۔ آپ کے فتاوے کی عظمت شان کا یہ عالم ہے کہ آپ کے فتاوے کے چند اوراق پڑھ کر فقیہ مکتہ المکرمہ حضرت مولانا سید اسماعیل علیہ الرحمہ نے یوں قابل صد تحسین تاثر پیش کیا۔ ”واللہ اقول والحق اقول انہ لوراھا ابوحنیفة النعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاقرت عینہ ویجعل مولفھا من جملة الاصحاب” یعنی بخدا میں کہتا ہوں اور حق کہتا ہوں کہ اگر حضرت امام اعظم اوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعلیٰ حضرت کے فتاوے کو ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں اور انہیں اپنے تلامذہ (امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام عبداللہ ابن مبارک رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کے طبقے میں شامل کرلیتے۔ آپ نے ایک اور مقام پر یہ بھی ارشاد فرمایا”بل اقول لوقیل فی حقہ انہ مجدد ھٰذا القرن لکان حقاو صدقالیس علی اللہ لمستنکر ان یجمع العالم فی واحذ” یعنی بلکہ میں کہتا ہوں کہ انہیں اس صدی کا مجدد کہا جائے تو یہ بات مبنی برحق وصداقت ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے قطعی طور پر متعذر نہیں کہ وہ ایک فردواحد کے اندر کل جہاں کو آباد فرما دے۔
آپ کے فتاوے کی ہمہ گیری وجامعیت پر اس سے بڑھ کر دلیل کیا ہوگی کہ وہ پانی جس سے وضو کا جواز ثابت ہے اس کی آپ نے ایک سوساٹھ اور وہ پانی جس سے وضو کا عدم جواز ثابت ہے اس کی ایک سوچھیالیس قسمیں بالتفصیل بیان فرمائیں۔ اسی طرح جن چیزوں سے تیمم جائز ہے ان کی ایک سوا کیا سی قسمیں واضح فرمائیں۔ ان ایک سوا کیاسی قسموں میں چوہتر قسمیں وہ ہیں جو جملہ فقہاء کرام کی مساعی جلیلہ کا روشن نتیجہ ہیں۔ رہیں دیگر ایک سوسات قسمیں یہ آپ کی بے مثال علمی بصیرت کی جلوہ سامانیاں ہیں۔ وہ چیزیں جن سے تیمم کرنا جائز نہیں ان کی تعداد فقہاء کرام نے اٹھاون بتائی مگر آپ نے ان میں بہتر قسموں کا اضافہ فرما کر فقہی دنیا کو حیران وششدر کردیا۔
٭٭٭