گزشتہ دو تین ماہ سے غیر جانبدار مبصرین و تجزیہ کار ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال پر اکتوبر کے مہینے کو سیاسی و عوامی حوالے سے خطرناک قرار دیتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں نقصانات اور منفی اقدامات کی نشاندہی کر رہے تھے۔ اس امر کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ موجودہ حکومت اپنے سہولت کاروں کی سرپرستی سے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمائے گی جس سے کپتان کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کو زک پہنچائی جا سکے اور عوام میں مقبول اس کے بیانیہ کو دھندلایا جا سکے۔ اکتوبر تو گزر گیا البتہ اس ماہ میںعمران، اس کے وفادار ساتھیوں، میڈیا کے لوگوں اور ہمدردوں کے خلاف جو اقدامات کئے گئے وہ قارئین کے علم میں اور پاکستانی سیاست کی تاریخ کا حصہ ہیں مقدمات، کپتان کو نا اہل قرار دیا جانا، شہباز گِل، اعظم سواتی، جمیل فاروقی کی گرفتاریوں، تشدد کے معاملات سے تو ہر پاکستانی واقف ہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر میڈیا خصوصاً عمران کے حامی اینکرز وصحافیوں کیلئے بدترین ثابت ہوا۔ ارشد شریف کی کینیا میں شہادت، صدف نعیم کی اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران رحلت (فرض کی ادائیگی کیں جان سے جانا شہادت ہے)، معید پیرزادہ، ارشاد بھٹی وغیرہ کو دھمکیوں و دہشت، دہشت گردیوں اور جان سے جانے کے خوف دلانے کے باعث ملک چھوڑنا پڑا، چوہدری غلام حسین کو 20 سال پرانی ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار کیا جانا تمام میڈیا میں انتہائی خوف و ہراس ہے کہ کب کس وقت، کس کیساتھ کیا ہو جائے۔ اسی پر بس نہیں، اکتوبر کا مہینہ اس حوالے سے بھی ایک ریکارڈ بنا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی نے اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان کیساتھ پریس کانفرنس کی۔ جنرل موصوف نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بالذات ٹی وی چینلز پر آنے کو تو کیا اپنی تصویر دکھانے کے بھی حق میں نہیں ہیں لیکن اپنے ادارے کے حوالے سے غلط بیانی اور منفی تاثر پھیلانے کے پی ٹی آئی کے بیانیئے پر حقائق سے آگاہی دینے کیلئے انہیں میڈیا سے مخاطب ہونا پڑا۔ جنرل صاحب نے سائفر کی اہمیت و ماہیت سے لے کر کپتان کیخلاف عدم اعتماد سے بچنے کی خاطر آرمی چیف کی غیر متعینہ مدت تک توسیع کی پیشکش اور ارشد شریف کی شہادت کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی لا تعلقی کے انکشافات کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے واقعات یا انکشافات تو اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان بھی کر سکتا تھا تو ڈی جی آئی ایس آئی کے ذریعے ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حقیقت یہ ہے کہ جنرل حمید گُل جیسا طاقتور آئی ایس آئی سربراہ بھی جس نے افغان سوویت یونین جنگ میں اہم ترین کردار ادا کیا اور سوویت یونین کی شکست کا باعث رہا کبھی اپنی ایکٹو سروس کے دوران کبھی میڈیا سے مخاطب نہیں ہوا تھا تو پھر موجودہ سیاسی بحرانی منظر نامے میں اس اقدام کو کیا معنی دیئے جا سکتے ہیں۔ ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ عمران کی بھرپور عوامی مقبولیت کے باعث فیصلہ سازوں کی ساکھ کے متاثر ہونے کی سچائی کے پیش نظر اور عمران خان کے بیانیئے کی عوامی پذیرائی و کامیابی کو متاثر کرنے کی خاطر کسی غیر متوقع فارمولے پر عملدرآمد کیلئے یہ ایک پیش بندی کی کوشش تھی لیکن کیا کوئی غیر جمہوری ایڈونچر خصوصاً موجودہ حالات میں کہ جب ایک اندازے کے مطابق تقریباً 80فیصد عوام عمران کیساتھ ہیں اور عمران کیخلاف جانے والوں کیلئے ان کے دلوں میں شدید غصہ اور نفرت ہے کیا ایسے کسی اقدام کی حمایت کرینگے جو جمہوریت بالخصوص کپتان کیخلاف جاتا ہو؟
جب ہم یہ سطور لکھ رہے، عمران کا لانگ مارچ اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے، ہر جگہ، ہر شہر میں لاکھوں کی تعداد میں عمران خان کے دیوانے محبت و جذبات کا بھرپور اظہار کر رہے ہیں۔ گوجرانوالہ، پہلوانوں کے شہر میں جہاں ن لیگ کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بمعہ خرم دستگیر خان اکثریت میں ہیں نہ صرف کپتان کے پروانوں کا سیلاب ریکارڈ بنا بلکہ ایک ویڈیو ایسی بھی وائرل ہوئی جس میں ایک پولیس اہلکار نے لانگ مارچ کے راستے میں لکھے ہوئے فوٹو کو دیکھ کر اپنی موٹر سائیکل سے اُتر کر تصویر کو زبردست سیلوٹ مارا اور واپس بائیک پر بیٹھ کر اپنی منزل کو روانہ ہو گیا۔ جس رہنماء کیلئے عوام محبت کا اس طرح اظہار کر رہے ہوں اس کیخلاف کوئی بھی اقدام محض ملک و قوم سے دشمنی ہی ہو سکتا ہے اور مخالفین کیلئے ناکامی کا باعث ہی بن سکتا ہے۔ کپتان کے عوام سے اس جذبے اور بیمثال محبت نیز لانگ مارچ کے متوقع نتائج کے خوف سے امپورٹڈ حکومت اور اس کے ہینڈ لرز ایک جانب تو ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو کسی بھی طرح نہ عوامی مفاد میں ہیں اور نہ ہی پُر امن مارچ کی تکمیل کیلئے سود مند ہو سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف ڈس انفارمیشن کا بیانات و عمران مخالف میڈیا و مبصرین کے ذریعے طوفان برپاکیا جا رہا ہے۔ ریڈ زون کا دائرہ وسیع کر کے زیرو پوائنٹ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ جہاں فوج، ایف سی اور رینجرز پوسٹ کر دیئے گئے ہیں تاکہ عوام کا سمندر بالخصوص اسلام آباد کے عوام اپنے محبوب رہنما کے ہمراہ شریک نہ ہو سکیں۔ عمران خان کے واضح مؤقف کہ لانگ مارچ پُر امن ہوگا کے باوجود حکومتی وزیر داخلہ و ترجمان اور بکائو میڈیا، خون خرابے کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں حتیٰ کہ فیصل وواوڈا سے پریس کانفرنس کروا کے لانگ مارچ میں خون ہی خون اور جنازوں کی وعید کرا دی گئی، موصوف پی ٹی آئی سے نکال بھی دیئے گئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ فیصل وواوڈا کا یہ اقدام کس بناء پر تھا، شنید ہے کہ فیصل واوڈا فیصلہ سازوں، مقتدرین سے بہت قُربت میں ہیں۔ ادھر مفرور سابق وزیراعظم نے اپنے وزیراعظم بھائی کو سختی سے ہدایات کر دی ہے کہ عمران خان یا پی ٹی آئی کے عہدیداران سے کوئی مذاکرات نہ کئے جائیں نہ ہی کسی قسم کی رعایت کی جائے اور سختی سے کام لیا جائے۔ سیاسی بے یقینی او ابتری کی موجودہ حالت میں کیا پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
بھگوڑا نوازشریف تو لندن میں مزے لے رہاہے، بیٹی بھی باپ کے پاس پہنچ چکی ہے۔ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں اس کے نتائج اور اثرات ملک و قوم پر ہونگے اور ذمہ داری موجودہ وزیراعظم چھوٹے میاں اور قیادت پر ہوگی۔ ہماری تجویز تو یہی ہے کہ مذاکرات (خواہ بیک ڈور چینلز سے ہی ہوں) کے ذریعے سیاسی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے ورنہ کپتان اور عوام تو فیصلہ کر چکے ہیں کہ!
جس قدر ظلم کی شوریدہ سری بڑھے گی
اپنا انداز جنوں بڑھتا چلا جائیگا
خاکم بدہن اس کے اثرات وطن عزیز پر ہر گز مفید نہیں ہونگے، گزشتہ 37 انتخابات میں سے 29 حلقوں میں کپتان کی ریکارڈ کامیابی ثبوت ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ عام شفاف انتخابات کا اعلان ہی واحد حل ہے۔
٭٭٭