داخلی و خارجی عناد!

0
131
جاوید رانا

اتحاد، اتحاد، اتحاد
ہم نے اپنے گزشتہ کالم کا اختتام ایک شعر ”امن عالم کے لیے اگلی صفوں میں شامل” جنگ کی بات میں صد باعث انکار ہیں ہم” سے کیا تھا، اس شعر کا تناظر وزیراعظم کا وہ مضبوط مؤقف تھا جو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے دیا گیا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ یہ مؤقف ساری قوم کے دل کی آواز ہے لیکن دوسری جانب دنیا کی طاقتور ترین انتظامیہ یعنی امریکہ کیلئے غیر متوقع بھی تھا۔ 1979ء کی سوویت یونین، افغان جنگ ہو یا 9/11ء کے بعد امریکہ کا افغانستان میں 20 سالہ جنگ یا دہشتگردی کے نام پر ڈو مور کا مسلسل مطالبہ امریکہ نے نہ صرف پاکستان کو تھلّے لگایا ہوا تھا بلکہ اپنے پٹھو اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ذریعے پاکستان کی سالمیت، معیشت و امن کو بھی دائو پر لگایا ہوا تھا۔ اس تمام شیطانیت کا جو نتیجہ نکلا، 20 برس کے اس عرصے میں 80 ہزار سے زیادہ شہادتیں، بھارت کی سازشیں، پاکستان پر ایک ارب 20 ہزار ڈالرز سے زیادہ کا مالی بوجھ اور فیٹف جیسے اداروں کی پاکستان پر بے جا پابندیاں، غرض اس طرح پاکستان کو مجبور کیا گیا کہ امریکہ بہادر کے ایجنڈے پر عمل کیا جائے۔ افغانستان میں دو عشروں تک اپنی تمام تر عسکری قوت، نیٹو ممالک کے اشتراک اور پاکستان جیسے ممالک پر ڈومور کے حربوں کے باوجود امریکہ کو ناکامی ہی دیکھنی پڑی۔ بالآخر امریکہ کو ویت نام، کوریا، عراق کی جنگوں کی طرح افغان وار سے بھی دستبردار ہونا ہی پڑا۔افغان امن معاہدے کے نتیجے میں امریکہ کو انخلاء کا مرحلہ درکار ہے، تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ افغانستان کبھی بھی کسی طاقت کے تابع نہیں رہا بلکہ قبائلی و جنگی جنون کے باعث خود افغانستان کے اندر کوئی مستحکم و متحد حکومت قائم نہ رہ سکی ہے۔ امن معاہدہ کے باوجود بھی انتشار و محاذ آرائی کی کیفیت جاری ہے، صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے ملک کے ایک تہائی سے زائد صوبوں پر قبضہ کر لیا ہے حتیٰ کہ اشرف غنی کے گائوں اُس کے گھر پر بھی طالبان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں امریکی انتظامیہ و سی آئی اے جہاں ایک طرف اپنی افواج و سامان کا انخلاء محفوظ بنانا چاہتی ہے وہیں افغانستان پر اپنی عملداری قائم رکھنے کیلئے خطہ میں اپنے اڈوں اور عسکری نظام کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے ایک بار پھر روئے سخن پاکستان کی جانب ہوا ہے لیکن ماضی کے حکمرانوں کے برعکس وزیراعظم عمران خان نے دبنگ طریقے سے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان دوسروں کی جنگ کا حصہ بننے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ایک بار پھر خصوصاً ایسے حالات میں جب افغانستان میں کوئی متفقہ حکومت بننے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں اور موجودہ حکومتی طبقہ و طالبان کے درمیان محاذ آرائی مستقبل میں خانہ جنگی کی پیش بینی بن رہی ہے، پاکستان کا امریکہ کے منصوبے کا حصہ بننا ماضی کی طرح ایک بار پھر بدامنی، اسلحہ کی فراوانی، مہاجرین کی آمد کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ خطے کی اسٹریٹجک و معاشی صورتحال پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔
اثرات تو وزیراعظم اور ریاست کے مضبوط مؤقف و استدلال پر نہ صرف امریکہ سے بلکہ اس کے پروردہ اداروں، ممالک و میڈیا کی طرف سے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ عالمی و خارجی بلکہ اندرونی سطح پر بھی پاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈہ، اقدامات اور تخریبی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے پر ہی نظر ڈالیں تو ہمارا نکتۂ نظر واضح ہو جائیگا۔ پاکستان کو گرے لِسٹ میں ڈالنے والے ادارے فیٹف نے پاکستان کے 27 میں سے 26 ایشوز پر مکمل عمل و اقدامات کی تعریف تو کی ہے لیکن اسے گرے لسٹ سے نکالنے سے پہلو تہی کرتے ہوئے 27 ویں ایشو کی تکمیل کامطالبہ کیا ہے۔ اس اقدام میں فیٹف کے ایشیاء پیسفک گروپ نے (جس میں بھارت شامل ہے) منفی کردار ادا کیا ہے۔ منی لانڈرنگ، دہشتگردی کیخلاف پاکستان نے جس قدر کام کیا ہے، وہ دنیا بھر کے ممالک اور اداروں نے سراہا ہے لیکن فیٹف اس سے مطمئن نہیں، دوسری جانب بھارت جو نہ صرف خطے میں بلکہ خود اپنے ملک میں مذہبی، ریاستی اور جنگی جنونیت کی بدترین سرگرمیوں میں ملوث ہے حتیٰ کہ بھارت میں نیوکلیئر مادہ کُھلے بندوں فروخت ہو رہا ہے، فیٹف کی نظر میں نہیں آرہا ہے۔ بھارت کی پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے ثبوت کلبھوشن یادو کی صورت میں ہونے کیساتھ ای یو ڈس انفو کے انکشافات اور سلامتی کونسل میں پاکستان کے بھارت کیخلاف ڈوزیئر کیا فیٹف کو نظر نہیں آتے یا جان بوجھ کر اغماض کیا جا رہا ہے،یہ دو رُخی اس حوالے سے ہی نہیں۔
فیٹف نے گھانا جیسے ملک کو بھی جس نے محض چالیس میں سے تیرہ ایشوز پر تکمیل کی تھی گرے لسٹ سے نکال دیا جبکہ پاکستان کو مزید چار ماہ کی آبزرویشن پر ڈال دیا گیا ہے مقصد بس یہی ہے کہ پاکستان امریکہ کے ڈور مور کے مطالبے پر آمناً صدقناً کہے۔ شاہ محمود قریشی کے اس تبصرے پر کوئی شُبہ نہیں، تعین کرنا ہوگاکہ فیٹف تکنیکی ادارہ ہے یا سیاسی۔ ادھر آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی مالی امداد کا معاملہ ٹال دیا ہے کہ امریکی مقصد کی بجا آوری کیلئے پاکستان کو مجبور کیا جا سکے۔
ادھر امریکی صدر اور انتظامیہ کے روئیے بھی رعونت سے بھرے نظر آتے ہیں کہ بائیڈن، عمران خان سے رابطے سے گریزاں نظر آتے ہیں حتیٰ کہ لنڈزے گراہم جیسے سینئر اور امور خارجہ کے ماہر سینیٹر نے بھی صدر جوبائیڈن سے وزیراعظم پاکستان سے رابطہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں امن نہ ہو سکا تو حالات عراق سے بدترین ہو سکتے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں خطہ میں امریکہ کا پالتو اور نمک خوار بھارت بھی پاکستان کے امن و سکون کو برباد کرنے اور انتشار پیدا کرنے میں اپنے کمینے پن پر اُترا ہوا ہے اور ٹی ٹی پی اور را کے ایجنٹوں کے ذریعے دہشتگردی کے اقدامات پر تلا ہوا ہے۔ عسکری افواج پر بزدلانہ حملے خصوصاً بلوچستان اور پختونخواہ میں کر رہا ہے جبکہ لاہور میں جوہر ٹائون میں دہشتگردی کا واقعہ تازہ ترین ہے۔ شکر ہے کہ اس واقعہ کے مرتکب تمام افراد پکڑے بھی گئے اور اس سازش کے تمام ڈنڈے آشکار کر کے اس کے محرک را و این ڈی ایس کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارت ایک جانب تو سرحدی امن معاہدہ کرتا ہے دوسری جانب پاکستان کو بدنام کرنے اور اپنے آقاء کی خوشنودی کیلئے جعلی اور جھوٹے حملوں کا الزام پاکستان پر لگانے کیلئے جھوٹے اور ناکام ہتھکنڈے اپنا کر خود ہی ذلیل ہوتا ہے۔ جموں میں بھارتی فضائیہ کے مستقر پر ڈرون حملوں کا ڈرامہ رچا کر اپنے میڈیا کے ذریعے پاکستان پر الزام لگانے والی مودی ریاست کو سوچنا چاہئے کہ چھ پنکھوں والا کھلونا قسم کے ڈرون جن کی رفتار بھی 25,20 کلومیٹر سے زیادہ نہیں اور جن کی اسلحہ لے جانے کی استعداد بھی محدود ہوتی ہے۔ پاکستان خود کو بدنام کرنے کیلئے کیوں چلائے گا۔ دوسری بات یہ کہ پانچ منٹ کے وقفے سے دو ڈرون حملہ آور ہوئے اور بھارتی فضائیہ کا کنٹرول اور سسٹم انہیں چیک نہ کر سکا۔ اگر بھارت کا ایئر ڈیفنس سسٹم اتنا ناکارہ ہے تو خطہ میں چین جیسے ممالک کے مقابل وہ کیا کر سکے گا۔ پاکستان سے پنگا لے کر تو وہ دیکھ ہی چکا ہے۔
گزشتہ سطور میں ہم نے عرض کیا ہے کہ اپنے مضبوط ریاستی و حکومتی مؤقف اور امریکہ کو صاف جواب دینے کے باعث عالمی سطح پر بلکہ داخلی محاذ پر بھی منفی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان مخالف اس ایجنڈے کو ناکام بننے کیلئے تمام طبقات باہمی اتحاد و یکساں مؤقف سے وطن عزیز کی سالمیت و تحفظ کو یقینی بنائیں۔ حکومتی اشرافیہ ہو یا مخالف سیاسی حریف یا دیگر طبقات اپنے سیاسی و ذاتی معاملات سے ہٹ کر ایک متفقہ بیانیہ اور مؤقف پر آگے بڑھیں اور قومی مفاد کو اپنا مطمع نظر بنائیں۔ اجتماعی مفاد اور وحدت کیلئے ہر فریق کو ذاتی عناد اور انا کی قربانی دینی ہوگی کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here