آج کل لوگ خوش بھی ہیں اور خوف زدہ بھی ۔ خوش ا س لئے ہیں کہ وائرس کا زور کم ہوا اور زندگی واپس آرہی ہے۔ گھر سے باہر نکلو تو سناٹے کا وہ منظر نظر نہیں آتا جو پہلے تھا۔ خاموشی ختم ہو چکی ہے اور چہل پہل دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ اکثر لوگ باہر ہوٹلوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں اور ہوٹلوں کی رونقیں واپس آگئی ہیں۔ سڑک پر خوبصورت اسٹال نما سجاوٹ جا بجا نظر آتی ہے۔ جہاں لوگ رات گئے تک بیٹھے کھانا پینا کرتے رہتے ہیں۔ ماسک چہرے پہ نظر نہیں آتے ہیں۔ نیویارک کی رونق پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اس لئے کہ ایک تو گرمی کا زمانہ اور پھر سڑک کے کنارے بنے ہوٹل اور ان میں بیٹھے لوگ ، رونق ہی رونق نظر آتی ہے۔ سچ ہے انسان سے ہی دنیا کی زندگی کی رونق ہے ورنہ یہ دنیا ویران نظر آتی ہے۔ اگرا نسان اس سرزمین پر نہ چلے، انسان ہی انسان کے کام آتا ہے اور یہ اشرف المخلوقات بھی اسی لئے ہے کہ یہ ہر مخلوق سے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔
مگر دنیا آج کل خوف کا شکار بھی ہے۔ مختلف طریقے کے خوف ہیں پتہ نہیں ویکسین صحیح ہے کہ نہیں ہے۔ ایک دوسیر سے قریب آئیں کہ نہیں آئیں۔ جس سے مل رہ ہیں کیا وہ ویکسین لگا چکا ہے یا نہیں۔ ایسے خوف اکثر دلوں میں ہیں۔ ایک اور خوف جو لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آنیوالی نسلوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ وباء کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار پھر رہے ہیں۔ ان کے بچوں کا کیا ہو گا؟ وہ کیا غریب میں پرورش پائیں گے کیا وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں گے۔ کیا ڈے کیئر کا ماحول پہلے جیسے ہو گا، بچے ایک دوسرے سے قریب آئیں گے یا ایک دوسرے سے فاصلے قائم رکھیں گے۔ کیا ان کی محبت کرنیوالی اساتذہ ان کو گرم جوشی سے لپٹا سکیں گی کیا ان سے قریب آکر پیار بھری باتیں کر سکیںگی۔ یہ سب خیالات والدین کے ذہنوں کو خوفزدہ کئے رکھتے ہیں۔ ایک خوف اور ہے کہ کیا دوبارہ جن کی نوکریاں چلی گئی ہیں ان کو اچھی نوکری مل سکے گی۔ جن کے گھر فروخت ہو چکے ہیں کیا وہ دوبارہ اپنے گھر بنا سکیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کیا دنیا میں جو پریشانی آئی ہے وہ خوشیوں میں بدل سکے گی۔ ایسے بے شمار غوف ہیں جو جرائم کو ہوا دے رہے ہیں۔ امریکہ میں بہت زیادہ تعداد میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری جاری ہے۔ اس لئے کہ جرائم پیشہ افراد کبھی چین سے نہیں بیٹھتے۔ جیسے ہی پولیس کا خوف کم ہوتا ہے ان مجرموں کو جرائم کا موقع مل جاتا ہے اپنے کام کرنے کا اور چونکہ نوکریاں نہیں ہیں تو بہت سارے خوف کا شکار لوگ ایک دوسرے کو جرائم پیشہ بنا رہے ہیں۔ خوشی اور خوف کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ خدا کرے کہ خوشی، خوف کو ختم کر دے اور دنیا کی رونقیں سکون کے ساتھ واپس آجائیں۔ ہمارے بچے دنیا کی ہر خوشی دیکھیں اور ہم سب پہلے کی طرح سکون کی زندگی گزار سکیں۔ آمین