بنگلہ دیش کا 29 سالہ عبدالرشید جو ساڑھے چار سو ٹاکا روزانہ کی اُجرت پر کام کرتا تھا، اچانک زبردست مصیبتوں کے گرداب میںپھنس گیا، اُس کی 23 سالہ بیوی رقعیہ حاملہ تھی جسے وہ چیک کرانے کیلئے دیناج پور صدر ہسپتال 4 اگست کو لے کر گیا، اِس سے قبل اُس کی ایک ڈھائی سالہ بیٹی زیر کفالت تھی ، وہ سب کے سب نئے بچے کی آمد کا انتظار کر رہے تھے لیکن یہ وہ دور تھا جب بنگلہ دیش میں طلبا تحریک عروج پر تھی،دیناج پور صدر ہسپتال میں مریضوں کی ایک لائن لگی ہوئی تھی جو پرچی بنانے کیلئے کھڑی ہوئی تھی، عبدالرشید اپنی بیوی کوایک محفو ظ ایریا میں لے جاکر بیٹھادیا اور خود لائن میں کھڑا ہوگیا، اُسے قطعی معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے، اچانک چار سو سے گولیوں کی چلنے کی آوازیں آنے لگیں،ہسپتال اچانک میدان جنگ بن گیا، پولیس اور عوامی لیگ کی طلبا تنظیم چھاترا لیگ نے طلبا تحریک کے ایک جلوس پر ربر بلٹ اور پیلٹس سے فائر نگ شروع کردیں جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے،عبدالرشید اپنی جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگنا شروع کردیا لیکن شومئی قسمت کہ وہ اُس سے بچ نہ سکا،ایئر گن کے درجنوں چھرے اُس کے جسم میں پیوست ہوگئے جس سے اُس کے پیٹ کا حصہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، ہسپتال میں اُسے ابتدائی طبی امداد پہنچائی گئی اور گھر واپس بھیج دیا گیا،لیکن چند دِن بعد عبدلرشید کے زخم میں ناقابل برداشت درد شروع ہوگئی، اُسے 8 اگست کو دیناج پور میڈیکل کالج ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اُسے فوری طور پر سرجری کی تجویز دی، دوسرے دِن عبدالرشید کا آپریشن ہو گیا اور اُس کے پیٹ سے 9 چھروں کو نکالا گیا تاہم ڈاکٹروں نے اُسے ایک دوسری سرجری کروانے کا بھی مشورہ دیا کیونکہ چھروں نے اُس کے یورینل سسٹم کو بُری طرح نقصان پہنچادیا تھا،دوسرے دِن رقعیہ نے ایک دوسری بیٹی کو جنم دیا، اچانک عبدالرشید کے گھر کے اخراجات میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا،. ویسے بھی اُس کی آمدنی محدود تھی، اُس کے پہلے دودِن کے ہسپتال میں داخلے پر سترہ ہزار ٹکا خرچ ہوئے تھے، سونے پر سہاگا بچی کی پیدائش پر اخراجات میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، دِن دُگنی رات چوگنی ہسپتال سے آنی والی بلوں ، گھر میں آمدنی کے کوئی اور ذرائع کا نہ ہونا اور اکتوبر سے قبل مزید سرجری کروانا عبدالرشید اور اُس کی بیوی رقعیہ کو کوئی اور چارہ نہ چھوڑا تھا ماسوائے اِس کے کہ وہ اپنی نومولود بیٹی کو کسی کے ہاتھوں فروخت کردیں،اُنہوں نے 12 اگست کو اُس کی پیدائش کے تین دِن بعد اپنے جاننے والے ایک بے اولاد جوڑے کے ہاتھوں اُسے37 ہزار ٹکا میں فروخت کردیا، کُل رقم کے 25 ہزار ٹکا کی ادائیگی فوری طور پر ہوئی اور باقی ماندہ 12 ہزار ٹکا بعد میں دینے کا وعدہ کیا گیا،نومولود بیٹی بے اولاد جوڑے کے حوالے کر دی گئی،تاہم بنگلہ دیش نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو اِس لین دین کی بھنک مل گئی اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو بنیاد بنا کر کمیشن نے وہاں کے ڈپٹی کمشنر کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اِس کی تفصیل سے رپورٹ پیش کرے کہ کس طرح والد کے علاج کیلئے ایک بے بی گرل سر عام فروخت کر دی گئی،ایک سو موٹو میں ہیومن رائٹس کمیشن نے اِس امر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ وہ اِسے ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے، کمیشن نے علاج کی خاطر ایک بچی کی فروخت پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اِسے حکومت کی نا اہلی سمجھتی ہے جو اپنے شہریوں کو معقول علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے میں ناکامیاب ہو گئی ہے جسے آئین میں ایک شہری کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے، انسانی حقوق کی کمیشن نے اِس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اپنی بیٹی کو فروخت کرنے والا جوڑا کس طرح ایسے حالات سے دوچار ہو گیا جبکہ سرکاری ہسپتال میں مفت سرجری کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں، بہرکیف بیٹی سگی ماں کے گود میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے، فطرت کے اِس قانون کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دیناج پور لوکل باڈیز کے ارباب حل وعقد نے بچی کو دوبارہ اپنی سگی ماں کے گود میں واپس بھیجوانے کیلئے تگ و دو شروع کردی اگرچہ سگی ماں کا یہ موقف تھا کہ بچی اپنانے والے جوڑے کے گھر میں ہی خوش رہے گی اور اُس کی پرورش صحیح طور پر ہوسکے گی، وہ چاہتی تھی کہ بچی کی تعلیم و تربیت اچھی ہو اور اُسی کے ساتھ ساتھ اُس کے شوہر کو وہ تمام طبی سہولتیں مہیا ہوں جو اُس کے صحتمند بننے کیلئے ضروری ہیں، لوکل باڈیز کے ارکان اور شوسل ورکروں نے بچی کو خریدنے والے والدین کو یہ قائل کرنا شروع کردیا کہ وہ بچی کو اُس کی اصلی ماں کو واپس کردیںبالآخر بچی کو خریدنے والے والدین اِس بات پر آمادہ ہوگئے کہ وہ بچی کو اِس شرط پر واپس کردینگے اگر اُن کی کُل رقم بھی واپس کر دی جائیگی، دیناج پور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد معین الحق بچی کی ماں رقعیہ کے ساتھ معاہدے کے ایک ماہ بعدبچی کو خریدنے والے جوڑے کے گھر پہنچے، اُنہوں نے وہ رقم واپس کردی جو والدین کو دی گئی تھی، والدین کو ا ُن کی بچی واپس مل گئی اور اُنہیں یہ باور بھی کرادیا گیا کہ حکومت اُن کے سارے اخراجات کو برداشت کرے گی ، بچی کی والدہ کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، اُس نے جذباتی لہجے میں کہا کہ ” بچی کو فروخت کرنا ایک غلطی تھی، اب میں بہت خوش ہوں کہ وہ مجھے واپس مل گئی”