پاکستانی سیاست اور اعلیٰ عدالت کا فیصلہ!!!

0
2
شمیم سیّد
شمیم سیّد

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں پر فیصلے کی وضاحت سے متعلق اپنی درخواست مسترد کئے جانے اور سپریم کورٹ کے تازہ حکمنانے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کا ذمہ دار نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کا انتباہ دیا ہے۔سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) سے متعلق مخصوص نشستوں کے معاملے پر فیصلہ سنانے والے آٹھ رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو پاکستان تحریک انصاف کے واپس آنے والے امیدواروں کی فہرست فوری طور پر جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔عدالت عظمی کے چار صفحات پر مشتمل حکم میں واضح کیا گیا کہ انتخابی نشان کی عدم موجودگی سے کسی سیاسی جماعت کے قانونی اور آئینی حقوق سلب نہیں ہوتے۔بنچ میں شامل ججوں نے کہا کہ “پی ٹی آئی ایک تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے اور اس نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں حاصل کی ہیں”۔الیکشن کمیشن نے دو ماہ بعد فیصلہ جاری ہونے پر شکوہ کیا ۔دریں اثنا الیکشن کمیشن نے بیرسٹر گوہر اور دیگر کے تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات میں انتخاب کے معاملات پر حتمی فیصلہ نہ ہونے کا بتایا۔سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کے سنگین نتائج سے خبردار کرنا اور الیکشن کمیشن کا معاملات کو بد ستور الجھائے رکھنے کا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں اور کارکردگی کی وجہ سے شروع ہونے والا سیاسی و آئینی بحران کسی نئے تنازع کا رخ اختیار کر سکتا ہے۔ رواں سال جولائی میں،سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ نے پی ٹی آئی سے منسلک جماعت، سنی اتحاد کونسل کی اپیل قبول کی تھی، عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں اسمبلیوں میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا مطالبہ مسترد کرنے کا ای سی پی کا فیصلہ برقرار رکھا گیا تھا۔ اس فیصلے نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں حاصل کرکے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر اپنی پوزیشن دوبارہ حاصل کرنے کا موقع دیا۔ججوں کی اکثریت نے عام انتخابات سے قبل جمع کرائے گئے پارٹی وابستگی کے سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر سنی اتحاد کونسل کے 80 قانون سازوں میں سے 39 کو پی ٹی آئی ممبر تسلیم کیا اور باقی 41 کو 15 دنوں کے اندر پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی اجازت دی۔ تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت پانچ ججوں نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا۔دریں اثنا، قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ وفاقی حکومت ایک جامع عدالتی اصلاحاتی پیکیج متعارف کرانے کی تیاری کر رہی ہے، جس میں آئینی ترامیم بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ تبدیلیاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کو تبدیل کر سکتی ہیں اور اعلی عدالتوں کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ نے اگر حکم جاری کیا تو مجوزہ آئینی ترامیم کو روکا جا سکتا ہے۔ سنی اتحاد کونسل وغیرہ بمقابلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، غیر رسمی طور پر مخصوص نشستوں کا مقدمہ کہلاتا ہے،یہ ایک عدالتی مقدمہ ہے۔ اس معاملے میں سنی اتحاد کونسل نے پاکستان الیکشن کمیشن کے قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی، سندھ اسمبلی، اور KPK اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو نہ دینے کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ سنی اتحاد کونسلکا استدلال یہ تھا کہ قانون کے مطابق، متناسب نمائندگی کی بنیاد پر اسمبلی میں پہلے سے منتخب پارٹیوں کو ریزرو سیٹیں دی جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے تحت 84 نشستیں حاصل کیں اور اس لیے سنی اتحاد کونسل کی دلیل کے مطابق، خواتین کی 60 نشستوں اور 10 اقلیتی نشستوں کی متناسب نمائندگی سنی اتحاد کونسلکو دی جانی چاہیے تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا استدلال تھا کہ چونکہ ایس آئی سی کے تحت ان ارکان نے 2024 کے انتخابات کے لیے آزاد امیدواروں کے طور پر اندراج کیا تھا، اس لیے انہیں ریزرو نشستیں نہیں ملیں گی، کیونکہ انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔ دلیل یہ بھی ہے کہ SIC نے ریزرو سیٹ ہولڈرز کے لیے پہلے سے امیدواروں کی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔سپریم کورٹ کے وضاحتی فیصلے اور الیکشن کمیشن کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ قومی ادارے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی اور اس سے پھوٹنے والے نئے نئے بحرانوں کی سنگینی کو فراموش کر رہے ہیں۔قاعدے قانون کی حالت سے عام آدمی اچھی طرح واقف ہے ۔ پی ٹی آئی کے ممبران خود کو کیوں آزاد ظاہر کرنے پر مجبور ہوئے ،حکومت کا اس معاملے میں کیا کردار ہے اور آئینی ترامیم کس طرح ہو رہی ہیں یہ معاملات مخصوص نشستوں کی تعداد کے ساتھ منسلک ہیں۔ملک کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی کشیدگی میں کمی کے لئے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا رویہ ترک کیا جائے۔ عمومی طور پر یہ تصور موجود ہے کہ آئینی طور پر خود مختار ادارے بھی کسی تنازع کی صورت میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنا آئینی کردار نبھانے میں ناکام ہو رہا ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے پورے ایک سال بعد تک الیکشن کمیشن نئے انتخابات نہ کرا سکا،اسی طرح قومی اسمبلی کے انتخابات بروقت نہ ہو سکے ۔کے پی کے میں سینٹ کے انتخابات میں کئی ماہ کی تاخیر ہو چکی ہے۔ایک ادارہ جس کا کام ہی صرف بروقت انتخابات کرانا ہیں جب اپنا کام نہیں کرے گا تو تنقید ہونا قدرتی امر ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here