ایک زمانہ تھا کہ وقت کے بادشاہ اور امرا، اپنے درباروں میں ادب و سخن کی محفلیں سجا کر نہ صرف اہلِ قلم اور شعرا کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے بلکہ اپنی شان میں شعرا کے کہے ہوئے قصیدے بھی سماعت فرماتے تھے۔ بادشاہ سلامت ان محفلوں کے اختتام پر ان اہلِ سخن و ہنر اور شعرا کرام کو انعام و اکرام اور خلعتوں سے بھی نوازتے تھے۔ اس پرانے زمانے میں، جدید میڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے، یہی اہلِ سخن و ہنر اور شعرا، بادشاہوں اور امرا کیلئے پبلک ریلیشنز کے محکمہ کی طرح کام کیا کرتے تھے تاکہ بادشاہ سلامت کی پروفائل بڑھائی جا سکے اور اس کی رحمدلی اور سخاوت کے قصے زبان زدِ عام ہو جائیں۔فی زمانہ، کمیونیکیشن کے ذرائع بدل چکے ہیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارموں نے بادشاہ کے درباروں کی جگہ لے لی ہے اور پبلک ریلیشنز و مارکیٹنگ کے یہ جدید ذرائع حکمرانوں کے علاوہ مختلف تنظیمات اور بزنس کارپوریشنز کو بھی میسر آچکے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے مشہور و معروف افراد کیلئے پبلک انفلوئنسر کی ایک نئی اصطلاح ایجاد کر لی ہے۔ یہ انفلوئنسر، ادیبوں، شعرا اور دیگر اہلِ سخن کے متبادل استعمال کر لئے جاتے ہیں، جس سے لا محالہ اہلِ ہنر و سخن کی بے قدری ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پرانے زمانے کی طرح، اس نئے دور میں بھی معتبر اور سنجیدہ اہلِ سخن کے ساتھ ساتھ بکا مال بھی فراوانی کے ساتھ دستیاب ہے۔ عوام میں عزت اور پذیرائی تو حق اور سچ کی بات کرنے والوں کو ملتی ہے لیکن مال و زر کی فراوانی حکومتوں کی خوش آمد کرنے والے ٹولے کو ہی حاصل ہوتی ہے۔مغرب میں رہائش پذیر برِ صغیر پاک و ہند کا اردو داں طبقہ بڑی باقاعدگی سے شعرائے کرام کو دعوت دے کر بلاتا رہتا ہے اور شعر وسخن کی محفلیں سجتی رہتی ہیں۔ غزل اور مزاح کے بڑے بڑے اساتذہ کرام یہاں تشریف لاتے رہتے ہیں۔ ان مشاعروں کا انعقاد ادبی سوسائیٹیوں کے علاوہ رفاہی ادارے بھی کرتے ہیں۔پچھلے دنوں زکوا فانڈیشن آف امریکہ کے زیرِ اہتمام، امریکہ کے نو بڑے شہروں میں جب چیریٹی مشاعروں کا انعقاد کیا گیا تو انہیں بڑی پذیرائی ملی۔ پاپولر میرٹھی، راجیش ریڈی اور عقیل نعمانی صاحبان انڈیا سے جبکہ خالد مسعود خان صاحب پاکستان سے تشریف لائے۔ مشہور شاعر وسیم بریلوی صاحب نے بھی تشریف لانا تھا لیکن اچانک طبیعت کی خرابی کے باعث انہیں، چیک ان کرنے کے بعد، دہلی ائیرپورٹ کے قریبی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہونا پڑا۔زکوا فانڈیشن کی جانب سے ان مشاعروں کے انعقاد کا اصل مقصد غزہ کے یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام کرنا ہے۔ صیہونی ریاست نے ظلم و تشدد کے ذریعے سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ زکوا فانڈیشن نے غزہ کے محاصرے کے فورا بعد وہاں ریلیف کا کام شروع کیا اور مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ پچھلے سال کے اکتوبر سے، غزہ کے حالات بہت ہی زیادہ خراب ہیں، اسی لئے ریلیف کے کام کے ضرورت میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کے مخیر حضرات بڑی فراخ دلی سے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے، غزہ کے مظلوموں کی حتی المقدور مدد فرما رہے ہیں۔
مہمان شعرا نے ایک لمبا سفر طے کیا اور سیئٹل (واشنگٹن) سے لے کر میامی (فلوریڈا) تک، نو بڑے شہروں میں مشاعرے پڑھے تاکہ غزہ کے یتیموں کی مدد ہو سکے۔ میں نے بھی ان مشاعروں میں سے کچھ میں شرکت کی اور خوب لطف اٹھایا۔ ہر مشاعرے میں تقریبا ڈیڑھ سو سے ڈھائی سو افراد نے شرکت کی اور شعرا کرام کو خوب داد دی۔ پاپولر میرٹھی صاحب کے یہ اشعار بہت مقبول رہے۔
کیا تعجب ہے کسی روز ہمیں بھی ڈس لیں
سانپ کچھ ہم نے پالے ہیں خدا خیر کرے
ایسی تبدیلی تو ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی
اب اندھیرے نہ اجالے ہیں خدا خیر کرے
ہر ورق پر ہے چھپی غیر مہذب تصویر
کتنے بیہودہ رسالے ہیں خدا خیر کرے
٭٭٭