نیو یارک پاکستانی کمیونٹی اور میڈیا کے دوستوں کے نام

0
95

تجزیہ: جہانگیر لودھی
خواتین وحضرت ! چند خبریں نیو یارک اور دنیا بھر میں ایک ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں ، ہمارے ملک کے وزیر شہر یار آفریدی جو ایک نیو یارک کی تنظیم کی دعوت پر نیو یارک تشریف لائے ہوئے ہیں جہاں انھوں نے پاکستانی امریکن کمیونٹی سے خطاب کیا۔آج موضوع شہریار آفریدی ہیں جن کے متعلق خبریں زیر گردش ہیں کہ انہیں نیویارک ائیرپورٹ پر روک لیا گیا اور کچھ عقل کے آندھوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ شہریار آفریدی کے کپڑے اتروائے گئے ہیں اور ان کو ڈی پورٹ کرنیوالے ہیں ، میں ایسی من گھڑت ، بھونڈی خبریں بنانے والوں کو صحافی کہنا بھی گناہ سمجھتا ہوں ، کچھ افراد نے تو شہریار آفریدی کی برہنا تصاویر بھی سوشل میڈیا پر ڈال دیں ، یہ نہایت افسوس ناک ہے، ”گھٹیا ”لفظ بہت چھوٹا ہے ، ان لوگوں کو شرم آنی چاہئے، ہمارے ملک کا ایک نمائندہ ہے کچھ تو سوچو وطن عزیز کی کتنی رسوائی کا سبب بنی آپ کی یہ گھٹیا حرکت۔
اب بات کرتے ہیں ائیر پورٹ پر روکے جانے کی جس کے منہ میں جو آیا کہہ دیا، روکا گیا، کچھ نے کہا چالیس منٹ، کچھ کہتے ہیں ایک گھنٹے سے زیادہ وغیرہ وغیرہ ، عائشہ علی کونسل جنرل نے ضمانت کروائی، اصل بات کچھ اور ہے ،شہر یار صاحب کو روکا گیا جو ایک معمول کی کاروائی تھی کیونکہ وزیر صاحب پہلی مرتبہ امریکہ آئے تھے ان کی کوئی پہلی انٹری نہیںتھی ،کوئی پہلا ریکارڈ نہیں تھا تو یہ سب معمول کی کاروائی تھی جو ہوئی اور اس میں جہاز نیو یارک لینڈ کرنے سے ائیر پورٹ سے باہر آنے تک وزیر صاحب کو ایک گھنٹے سے کچھ زائد وقت لگا جو ایک معمول کی بات ہے یہاں وزیر صاحب چونکہ نجی دورے پر آئے تھے تو کوئی پروٹوکول افسر لینے نہیں گیا تھا جو بہت عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے مگر ایسا ہی کہا جا رہا ہے ۔ کونسل جنرل عائشہ علی کا نام آیا کہ وہ ائیر پورٹ گئیں جبکہ عائشہ علی صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ ائیر پورٹ نہیںگئیں اور نا وزیر صاحب کو ائیر پورٹ سے باہر لانے میں کوئی کردار ادا کیاکیونکہ ٹھیک اسی وقت نیو یارک ائیر پورٹ پر وائس کونسلر صاحب کو دیکھا گیا ان کی تصاویر بھی ہیں۔اب یہ معمہ بن گیا ہے جہاں غلط فہمی جنم لے رہی ہے کہ اگر عائشہ علی ائیر پورٹ نہیں گئیں جو درست ہے تو عائشہ علی کا نمائندہ ائیر پورٹ پر کسے لینے گیا تھا ؟وہ وہاں کیا کر رہا تھا ؟کس کے کہنے پر گیا تھا ؟ اور اسی وقت وہ ائیر پورٹ پر کیوں تھا ؟ اس کی تصدیق وزیر صاحب نے بھی کی ہے کہ ائیر پورٹ پر کونسلر سے ملاقات ہوئی جنہوں نے اپنی طرف سے کسی قسم کی مدد کی آفر کی جسے میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ اب مس عائشہ پر ذمہ داری ہے کہ اپنے نمائندے کی طرف سے وضاحت دیں کہ کونسلر صاحب کیوں گئے تھے تو یہ قصہ ختم ہو جائے گا۔اب کچھ بات کر لیتے ہیں شہر یار صاحب کی طرف سے فلمی سٹائل میں مین ہیٹن کے ٹائم سکوائر پر ایک ویڈیو ڈلوائی گئی جس میں امریکی عورتوں پر تنقید کی گئی جو نہایت افسوس ناک ہے۔ اس ویڈیو میں نیو یارک کے ذمہ دار افراد بھی دیکھے جا سکتے ہیں، ان کی ذمہ داری تھی کہ اپنے مہمان کو ایسا کرنے سے روکتے اور یہ پاکستان سے وقتی طور پر آئے نام نہاد صحافی ایسے مشورے دیتے ہیں کہ اس طرح کرو ،اس سے گریز کر نا چاہئے۔اس حرکت سے ہم پاکستانی امریکن کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ،اس کی سخت مذمت کی جانی چاہئے۔
جو لوگ سب صحافیوں کو گالی گلوچ کرتے ہیں ان کے لئے بھی پیغام ہے ،سب کو برُا کہنا مناسب نہیں ہے اور ہمارے صحافی دوستوں سے درخواست ہے خبر ڈالئے مگر مکمل تحقیق کے بعد ، سچائی کے ساتھ اور سچی خبر کو مت دبائیں ،یہ مت سوچیں دوست ناراض ہو جائیں گے یا کوئی آپ کو برُا کہے گا۔ صحافت تصاویر ہی شائع کرنے کا نام نہیں ہے، سچی خبردینا بھی ذمہ داری ہے۔
نالے بلبل کے سنو ہمہ تن گوش رہوں ، میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here