اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے غزہ میں جاری ظلم۔و بربریت کیخلاف مذمتی بیانات ضرور سامنے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کیمطابق سال 1972 سے آج تک مجموعی طور امریکہ فلسطین کے مسئلہ پر 53 قراردادیں ویٹو کرچکا ہے جبکہ 7اکتوبر 2023 سے لیکر آج تک امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی 5 قراردادیں ویٹو ہو چکی ہیں۔ جبکہ اسرائیل کی جانب سے جاری بدترین نسل کشی کی وجہ سے شہدا کی تعداد 54 ہزار 607سے تجاوز کر گئی ہے۔اقوام متحدہ اور اسکے 193ممبر ممالک امریکہ کی ہٹ دھرمی کے آگے بے بس ہیں۔ پانچ جون کوسلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کی قراردارکو امریکہ نے ایک بار پھر سے ویٹو کردیا ہے۔ یہ قرارداد پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 10 غیر مستقل ارکان الجزائر، ڈنمارک، یونان ،گنی،پانامہ،جنوبی کوریا ،سیر الیون، سلوانیہ، اور صومالیہ نے پیش کی تھی۔جس میں کہاگیا تھاکہ غزہ میں بلاتاخیر،غیر مشروط، اورمستقل جنگ بندی عمل میں لائی جائے جسکا تمام فریقین احترام کریں۔ قرارداد کے مسودے میں جنگ بندی کے کیساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل و تقسیم میں حائل تمام رکاوٹوں کو فوری اور غیر مشروط دور کرنے اور اقوام متحدہ و امدادی شراکت داروں کو علاقے میں محفوظ اور بلارکاوٹ رسائی دینے کیلئے کہا گیا تھا۔ علاوہ ازیں قرارداد میں امدادی اصولوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کیمطابق غزہ میں ضروری خدمات کو بحال کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ انھوں نے فلسطینیوں کیلئے مناسب خوراک اور بھوک سے آزادی کے بنیادی حق کی توثیق کرتے ہوئے ان واقعات کی فوری آزادانہ تحقیقات اور ذمہ داروں کو جواب دہ ٹھرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اگرچہ انتونیو گتریس کے تمام مطالبات، سلامتی کونسل کے 10غیر مستقل اور 4مستقل ممبران کی جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت اور اقوام متحدہ کے باقی ممبر ممالک کی جنگ بندی کے حق میں اٹھنے والی آوازیں اور امریکہ سمیت یورپ میں عوام کے بڑے بڑے احتجاج سب مل کر بھی امریکہ کو جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے سے نہ روک سکے ہیں۔ ان حالات میں مستقبل قریب میں اسرائیل کے جنگی جرائم کو تحفظ دینے والی امریکہ کی ویٹو پالیسی کے عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں! یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان پر ہونیوالے انسانیت سوز مظالم کیخلاف اقوام عالم کے سخت ردعمل کے تناظر میں اگر امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے عمل کو دیکھا جائے تو بہت سارے سوالات ابھرتے ہیں؟ کیا غزہ میں مظلوم عوام کی نسل کشی اسی طرح جاری رہے گی؟ کیا امریکہ غزہ کے ایشو پر عالمی برادری میں تنہا ہورہا ہے؟ کیا حالیہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو ہونے کے بعد یورپی ممالک میں امریکہ و اسرائیل مخالف لہر میں تیزی آسکتی ہے ؟ ہم یہ بات کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے کہ جنگ بندی کی حالیہ قرارداد ایک ایسے موقع پر ناکام ہوئی ہے۔جب غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کئے ہوئے ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے علاقے میں طبی خدمات کے مکمل خاتمے ، بڑھتی ہوئی نقل مکانی اور اسرائیل کی خوراک اور ادویات کی ترسیل میں رکاوٹوں کے باعث بڑھتی ہوئی اموات کے بارے خبر دار کر رہے ہیں۔ان حالات میں آپ کہ سکتے ہیں کہ موجودہ جنگ بندی کی قرار داد فقط فلسطینیوں کے سیاسی و ریاستی حقوق کی قرارداد نہیں تھی بلکہ دم توڑتی انسانیت اور انسانی ہمدردی کی قرار داد تھی۔یہ قرارداد بھوک سے لاغر بچوں کو بچانے کی قراردا تھی۔یہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں انسانیت کی پکار کی قرارداد تھی۔یہ قرارداد غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کی قرارداد تھی تاکہ ہزار ہا بچوں کو نسل کشی اور بھوک کے باعث مرنے سے بچایا جاسکے۔لہذا امریکہ کی جانب سے ویٹو کی جانے والی موجودہ جنگ بندی کی قرارداد پہلی ویٹو کی گئی قراردادوں سے اپنی نوعیت میں مختلف نظر آتی ہے جسکا یورپی ممالک کی جانب سے ممکنہ ردعمل امریکہ کو عالمی سیاست میں فلسطین کے ایشو پر مذید تنہائی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔حال ہی میں فرانس کے پورٹ ورکرز نے اسرائیلی بحری جہازوں پر سازو سامان لادنے سے انکار کر دیا ہے۔ایک رپورٹ کیمطابق آئندہ چند روز میں یورپی ممالک کی بندرگاہوں پر کام کرنے والے پورٹ ورکرز اسرائیل میں جانے والے جہازوں پرجنگی سازوسامان لادنے سے انکار کی مہم کا حصہ بن سکتے ہیں
پانچ جون کو ہونیوالے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ مخالف 14 ممبران نے جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیکر امریکہ و اسرائیل کو واضع پیغام پہنچایا ہے کہ فلسطین میں جاری ظلم وستم کی اب مزید کوئی گنجائش باقی نہ ہے۔ اجلاس میں شریک تمام افراد نے امریکہ و اسرائیل مخالف بیانیہ اختیار کرتے ہوئے سخت الفاظ کا استعمال کیا ہے۔حتی کہ امریکہ کے سب سے بڑے دوست برطانیہ نے بھی جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ بھوک سے مرتے بچوں کی زندگیوں کو بچانا انتہائی ضروری ہے اس لیے غزہ میں جاری غیر انسانی سلوک کو بند کیا جانا چاہئے۔ امریکہ کی اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی ویٹو پالیسی نے امریکہ کو اقوام عالم کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔جسکا امریکہ کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہ ہے۔دوسرے الفاظ میں امریکہ اسرائیل کے ظلم و بربریت کو اقوام متحدہ کے ذریعیے تحفظ فراہم کرکے اقوام متحدہ کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے ؟ جس طرح اسرائیل بین الاقوامی قوانین کو پاوں تلے روند رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کیخلاف جاری فیصلوں پر کوئی عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کیا مکمل براعظم افریقہ ویٹو پاور سے محروم رہے گا؟ کیا عالمی قوانین پر عملدرآمد کیلئے ہمیں کسی نئے نظام کی ضرورت ہے؟ گویا اسرائیل کے سامنے بین الاقوامی قوانین بھی راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیںجبکہ انسانی حقوق کے چیمپین ہونے کا دعویدار امریکہ غزہ میں جاری لائیو نسل کشی کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔غزہ میں ظلم و ستم جاری رکھنے کے حق میں امریکہ کی ویٹو پاور کیخلاف بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور اقوام عالم یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کیا 8 ارب سے زائد انسانوں کا مستقبل فقط ایک ویٹو پاور کے ہاتھ میں محفوظ رہ سکتا ہے ؟
٭٭٭













