سیرت سے عمل کی طرف

0
109
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

الحمد للہ جب یہ تحریر آپ کی نظر سے گزر رہی ہوگی ،بارہ ربیع الاول گزر چکی ہوگی،ہم نے محافل میلاد، محافل نعت، محافل سیرت النبیۖ منعقد کرکے بہت سارا نیکیوں کا ذخیرہ جمع کر لیا ہوگا۔جو رحمت کی بارش برسی ہوگی،اس کا نتیجہ بھی نکلنے والا ہوگاکیونکہ جب آسمانی بارش زمین پر گرتی ہے۔تو زمین پھل دینے کے لئے جو بن پر ہوتی ہے اور ہم ڈھیروں اجناس اٹھاتے ہیں۔ہاں اگر زمین شور والی ہو تو بارش سے کیچڑ بن جاتا ہے۔اجناس تو دور کی بات ہے۔اگر ہم بیج ڈالیں گے تو وہ بھی زمین کھا جائے گی اور بیج ضائع جائے گا۔اسی طرح اگر ہم نے تمام محافل نیک نیتی سے کی ہونگی۔تو ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اجر سے محروم نہیں رکھے گا۔اگر ہماری نیت سستی شہرت کے لئے اور چند تصویریں ہوں گی تو ہم بھی انجام کار اجر سے محروم رہیں گے ،صحابہ کرام سرکار کی محبت میں عمل کے لئے کمربستہ رہتے تھے چونکہ محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس سے ٹوٹ کر محبت کی جاتی ہے پھر وہ اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔وہ اپنے لباس وضع قطع رنگ ڈھنگ میں محبوب کا ہم شکل بننے کی کوشش کرتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں میں ابھی بچہ تھا سرکار دو عالم سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور بے انتہا مودب تھا۔سرکار دو عالم نے ایک مرتبہ فرمایا عبداللہ تم بہت اچھے انسان ہو۔تم تہجد کی نماز پڑھا کروحالانکہ میں بچہ تھا۔مگر پنج گانہ نماز کے ساتھ تہجد بھی شروع کردی۔ہماری محبت عجیب ہے جب نماز کا وقت ہوتا ہے کپڑوں کا بہانہ کرکے باہر نکل جاتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے رنگا ہوا گلابی رنگ کا کپڑا پہنا ہوا تھا۔سرکار دو عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوا سرکار نے فرمایا یہ کیا پہنا ہے۔اس کے بعد میں اٹھا اور گھر جاکر اپنے کپڑے جلا دیئے مجھے یہ گمان گزرا شاید اللہ کے رسول نے ناپسندیدگی سے دیکھا ہے۔اس کے بعد میں سرکار دو عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔سرکار نے پوچھا عبداللہ وہ کپڑے کہاں ہیں۔میں نے عرض کی حضور جلا دیئے ہیں۔آپ نے فرمایا اللہ کے بندے اپنی کسی عورت کو دے دیتے۔عورتوں کو اس قسم کا لباس پہننا کوئی حرج نہیں ہے۔کیا خیال ہے میں عاشق بھی بنوں محبت رسول میں موت بھی قبول ہے کہ سارے جہان کے رنگ برنگے۔عمامے، ٹوپیاں، واسکٹ، اور شیروانیاں اور عبائیں پہنوں جو سرکار دوعالم کے ناپسندیدہ رنگ تھے تو ہمارے دعویٰ کی کیا حیثیت ہے۔حضرت بریدہ خوش شکل نہ تھے۔سرکار نے فرمایا بریدہ شادی کرلو۔عرض کی حضور رشتہ کون دیگا۔آپ نے ایک گھر اس کو بھیجا کہا کہ جائو مجھے سرکار دوعالم نے بھیجا ہے۔اپنی بیٹی کا رشتہ مجھے دے دو۔سوچ میںپڑ گیا۔کہاں میری بیٹی چندے آفتاب چندے ماہتاب کہاں بریدہ، بچی نے سن لیا۔بیٹی نے کہا بابا انکا رنہ کرو۔اسے رسول اللہۖ نے بھیجا ہے۔آنے والے کو نہ دیکھ بھیجنے والے کو دیکھ سومیرے بھائیو ،بچو سیرت مصطفی پر عمل ہی ہماری جنت کا ضامن ہے اور دنیا کی بہار اسی میں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here