جنرل حمید گل اللہ ان کو غریق رحمت کرے،بڑے بے باک جنرل تھے ،روس کے خلاف افغانستان میںمشن کے رواح رواں تو تھے ہی، مجاہدین سے گھرے روابط رکھنا انکی ذمہ داریوں کا حصہ بن گیا تھا۔لیکن نظریاتی طور پر بھی وہ مجاہدین کے قریب ہی تھے۔یا کہا جاسکتا ہے کہ مجاہدین کے رنگ میں رنگے گئے مشہور جنرل اختر عبدالرحمان(ہمایوں اختر کے والد) کے شاگرد تھے۔جنرل حمید گل ان پہلے جنرلزمیں سے ایک تھے جو پاکستان ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ان سے پہلے والے جنرل زیادہ تر سینڈھرسٹ برطانیہ سے تعلیم حاصل کرکے جنرل بنے تھے۔جنرل حمید گل 1956میں فوج میں شامل ہوئے تھے اور ترقی کرتے ہوئے1965کی جنگ میں شامل رہے اور پھر1971کے معرکہ میں بھی شامل رہے۔87ء سے89 تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی(ISI) کے عہدے پر کام کرتے رہے۔روس کے خلاف مجاہدین کی لڑائی کے دوران امریکن ادارے(CIA)کے قریبی رابطے میں رہے جنہیں مزاقاً جہادی جنرل بھی کہا جاتا تھا۔90 سے92تک ملتان کے کورکمانڈر رہے اور پھر93میں فوج سے ریٹائرڈ ہو کر دفاعی تجزیہ نگار بن گئے۔مجاہدین نے جب طالبان کا رخ اختیار کیا تو بھی جنرل حمید گل کے ان لوگوں سے گہرے روابط جاری رہے۔اگر دیکھا جائے تو اچھے(GOOD)اور بدلے(BAD)طالبان کا تصور بھی جنرل حمید گل ہی سامنے لائے۔فوج میں جنرل حمید گل شدت سے پاکستان پیپلزپارٹی اور محترمہ کے شدید مخالف تھے۔مغربی ذرائع ابلاغ کے اس تاثر کے محترمہ ایک ذہین سیاستدان ہیں اور بین الاقوامی معاملات میں ماہرانہ صلاحیت کی حامل ہیں۔جنرل حمید گل کی رائے اس کے برعکس تھی اور آئی جی آئی بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ محترمہ کے اقتدار میں آنے کا راستہ روکا جاسکے اور اسی مقصد کیلئے چودہ کروڑ روپے کی بندر بانٹ کی سکیم کے پیچھے بھی جنرل حمید گل ہی تھے۔جبکہ اس اسکیم کو عملی جامعہ پہنانے والے اسد درانی اور جنرل اسلم بیگ ہی تھے۔
جنرل فیض حمید کا تعلق چکوال سے ہے جو راولپنڈی کے قریب واقعہ سے نسبتاً کم عمر میں جنرل کے عہدے پر پہنچنے والے جنرل فیض حمید کی خصوصیت ہے کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تو2009ء میں مقرر ہوئے تھے لیکن یہ غالباً پہلے ڈی جی ہیں جو اس ادارہ کے سربراہ بننے سے پہلے یعنی1917ء سے کائونٹر ٹیورز کے سیکشن کو چلاتے رہے ہیں۔یہ سیکشنISIکا نہایت اہم ونگ ہے جیسے کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اس ونگ کا کام دوسرے ممالک کی طرف سے ہے۔دہشت گرد گروہوں کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو روکنا تھا اس کے بعد چند ماہ کیلئے جنرل فیض نے ایڈجوشٹ جنرل جوکہ آرمی کا ایڈووکیٹ جنرل کے برابر عہدہ ہے اس پر کام کیا۔راولپنڈی میں چلنے والی تحریک ختم نبوت میں بھی بلاوسطہ طور پر شامل تھے۔
قاضی فائز عیسیٰ کا مشہور فیصلہ جس میں آئی ایس آئی کی طرف سے اس دھرنے میں رقوم کی تقسیم کو غیر قانونی قرار دیا تھا جس کے بعد قاضی فائز عیٰسی کو کافی مشکلات پیش آئی تھیں ،عمران خان کے کنٹینر دھرنے میں بھی جنرل صاحب کی آشیرآباد شامل تھی۔عمران خان کو پاکستان کا نجات دھندہ سمجھنے والے جنرل پاشا کے ہمنوا ہیںاور عمران خان کی مشکلات میں اپنے عہدے کا بھرپور فائدہ لیکر ان کے لئے معاملات کوManageکرتے رہے ہیں۔چاہےPDMمیں نفاق پیدا کرنا ہو یا جہانگیر ترین کے گروپ کو کنٹرول کرنا ہو موجودہ حکومت کے اتحادیوں کی بے چینی اور دھمکیوں کو بھی یہی صاحب سنبھالتے رہے ہیںان کی پھرتیوں سے جہاں عمران خان صاحب نہایت مطمئن رہے ہیں اور اتنے مطمئن ہیں کہ وہ انہیں اگلا آرمی چیف بنانے پر مکمل تیار ہیں جبکہ افواج پاکستان کا ایک بااثر حلقہ انکی اس کارکردگی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہا ہے کیونکہ انکا خیال ہے کہ عوام پہلے ہی فوج کی سیاست میں دخل اندازی سے بدضن ہیں،اس سے فوج کا امیج خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔عمران خان کی ڈوبتی کشتی میں کوئی بھی سوار ہونے کو تیار نہیں ہے۔فوج کی ملکی سیاست میں دلچسپی سے نہ پہلے جنرل حمید گل کو تاریخ اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔نہ جنرل فیض حمید کو زیادہ فائدہ ہوسکے گا،اُلٹا افواج پاکستان کی ساکھ محروم ہونے کا خطرہ ہوگا۔جسکا کام اسکو ہی ساجے ، فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔
٭٭٭