کمیونٹی کیلئے لمحہ فکریہ ، مذہبی سکالرز کی ذمہ داری

0
199
شمیم سیّد
شمیم سیّد

آج میں ایک ایسے مسئلے پر قلم اٹھا رہا ہوں جو کہ میری ذمہ داری نہیں ہے۔یہ ذمہ داری ہماری کمیونٹی میں جو اسلامک سوسائٹی اور مساجد ہیں ان کے علماء کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف منبروں سے تقاریر توکرتے ہیں لیکن جو ضروری باتیں ہیں ان کا ذکر نہیں کرتے، سب سے پہلے تو ہمارے علماء کو یہ طے کرنا ہے کہ قبرستان میں عورتوں کے جانے پر ہماری شریعت میں کیا حکم ہے۔عورتوں کو اجازت ہے ،قبرستان میں جانے کی یا نہیں۔ہم تو ہمیشہ سے ہی سنتے آئے تھے کہ عورتوں کو قبرستان جانے کی اجازت نہیں ہے اب یہاں فقہہ کی بات آجاتی ہے ایک فقہہ میں اجازت اور دوسرے میں ممانعت ہوتی ہے کیونکہ جب سے ہم نئے دور میں آئے ہیں پرانی روایتوں کو بھولتے جارہے ہیں اور نئی لہر جو آرہی ہے ۔اس نے ان تمام پرانی بزرگوں کی باتوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ہمارے بزرگ کیونکہ ہندوستان سے آئے تھے اس لیے وہاں کی رسمیں ساتھ لائے ہیں اور وہ اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے اور مذہبی طور پر بھی اتنی معلومات نہیں رکھتے تھے اب سوشل میڈیا اور تبلیغی جماعتوں نے ہماری قوم میں نئی روح پھونک دی ہے اور ہمارا نوجوان ان کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے اور نوجوان اپنے والدین کو یہ کہہ کر خاموش کر دیتے ہیں کہ آپ لوگ غلط چل رہے ہیں وہی پرانی باتوں پر عمل کر رہے ہیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور آپ ابھی تک چاند دیکھنے میں ہی لگے ہوئے ہیں ۔ سائنس کی مدد نہیں لیتے اور جو علماء چاند کی رویت کی بات کرتے ہیں ان کو دقیانوسی قرار دیا جاتا ہے اور تمام احادیث کو بھی رد کر دیا جاتا ہے، دس سالوں کا کیلینڈربنا دیا جاتا ہے یہ باتیں تو پرانی ہوگئی ہیں آج میں جس بات کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں وہ ہماری مسلمانوں کے قبرستانوں میں اور ہمارے فیونرل ہوم میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں ہمارے علماء کو چاہئے کہ وہ کم ازکم کوئی ایسا فارم تیار کرنا چاہئے جس کے مطابق جنازہ کی تیاری اور تدفین کس طرح کی جائے تمام مسالک کے حساب سے فارم بنائے جائیں۔جب کوئی جنازہ آئے تو اس کو وہ فارم دے دیا جائے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اسلامک سوسائٹی آف گریٹر ہوسٹن کے زیراہتمام سب سے زیادہ مساجد اور مصلے ہیں اور فیونرل ہوم بھی ان کے پاس ہیں ،جماعت اہلسنت کے پاس کوئی فیونرل ہوم نہیں ہے۔سب کو وہیں جانا ہوتا ہے اپنے جنازوں کو لے کر اس لیے اسلامک سوسائٹی کو یہ قدم اٹھانا چاہئے۔ اب میں اس طرف آرہا ہوں جس کو دیکھ کر میرے بھی رونگھٹے کھڑے ہوگے ہمارے ایک جاننے والے نے ہمیں ہمارے قبرستان کی ایک تصویر دیکھائی جس میں عربی جنازہ دفنایا جارہا ہے ایک طرف مرد حضرات ہیں اور دوسری طرف خواتین کچھ برقعوں میں ہیں اور انہی خواتین میں سے ایک خاتون اسکرٹ پہن کر دعا مانگ رہی ہے وہاں موجود لوگوں میں سے کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس خاتون سے پوچھے تم مسلمان ہو اور کس حُلیے میں قبرستان آئی نہ ہی اس کے شوہر،ماں باپ نے اس پر اعتراض کیا جب ہمارے ایک پاکستانی نے اس پر اعتراض کیا تو اس کو یہ کہہ کر خاموش کردیا گیا کہ یہ امریکہ ہے تم یہاں سے دفع ہو جائو اور وہ بیچارہ وہاں سے ہٹ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اب یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر ہماری کمیونٹی میں اس بات پر نوٹس لیں اور آئندہ کسی ایسی خاتون کو اس رویے کا نشانہ نہ بنایاجائے۔اس لیے اجازت دے دی جائے ہمارے تمام علماء کرام اور مسجدوں کے اماموں کو اس بات پر اپنی کمیونٹی میں شریعت کے مطابق ان مسائل کو اُجاگر کرنا ہوگا۔میں تو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہماری خواتین میں جو یہ رحُجان بھی بڑھتا جارہا ہے کہ وہ سجدہ بھی مردوں کی طرح کرنے لگی ہیں کوئی ان کو منع نہیں کرتا کہ عورت کا سجدہ ایسے نہیں ہے۔اسلامک سوسائٹی آف گریٹر ہوسٹن سے درخواست ہے کہ وہ فوری طور پر ایسے اقدام کریں جس سے ان مسائل کا سدباب کیا جاسکے کیونکہ سب سے زیادہ مساجد اسلامک سوسائٹی کے پاس ہیں اور فیونرل ہوم بھی ۔اس لئے وہ تمام مسلکوں کے مطابق ایسے فارم تیار کریں جس میں ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے قبرستان کا تقدس پامال ہو ،یہ جو میں نے لکھا ہے اپنے دل کی سچائی سے لکھا ہے اللہ تعالیٰ میری اس کوششیں کو قبول فرمائے(آمین)۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here