چھٹی قسط
آپ کے فقہی کمالات پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد پورے وثوق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بلاشبہ فتاویٰ رضویہ محض فتاوے کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ یہ فقہ حنفی کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ آپ کے فتاوے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی ان سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں۔ جب کسی مفتی کو کسی مسئلے کا حل مشہور زمانہ کتب فقہ شامی، عالم گیری، فتح القدیر وغیرہ میں نہیں مل پاتا تو وہ فتاویٰ رضویہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسے تھوڑی سی جستجو کے بعد مفتی بہ اور شافی جواب حاصل ہوجاتا ہے۔ فتاویٰ رضویہ کی اہمیت وافادیت سے متعلق جناب مجیب مصری صاحب اپنے مشہور مقالہ”مولانا احمد رضا خاں واللغة العربیة” میں رقم طراز ہیں، ” وبالنظر فی ھٰذا النشر الفنی تبین لنا انہ یتسم بالسلاسة۔ یعنی امام احمد رضا کے شہرہ آفاق” العطایاالنبویة فی الفتاویٰ الرضویہ” کے فنی نژ کا بالغائر مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واشگاف ہوجاتی ہے کہ یقینا سلاست وروانی آپ کے طرز نگارش کا مابہ الامتیاز وصف ہے۔ کثیرالتصانیف پروفیسر ڈاکٹر حسین جنہیں مختلف ممالک نے تمغہ امتیاز سے نوازا ہے، سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے فقیدالنظیر علم وفن سے متاثر ہو کر آپ کی عظمت شان پر ایک نہیں بلکہ دو قصیدے بزبان عربی کہے۔ ان قصیدوں کو پڑھنے کے بعد سیدی اعلیٰ حضرت کے تبحرعلمی اور تفحص فنی کا اعتراف اپنے تو اپنے ہیں غیروں کے لئے بھی ناگریز ہوجاتا ہے۔ موصوف کا ایک جملہ جو انتہائی جامع اور مبنی پر حقیقت ہونے کے پہلو بہ پہلو آپ کی عربی زبان وادب پر مہارت تامہ کا خطبہ پڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں، ”علامہ اقبال کو میں نے ترجموں سے جانا مگر امام احمد رضا کو براہ راست عربی سے جانا گویا یہ کوئی عربی نژاد ہندی ہیں۔” علاوہ ازیں موصوف نے سیدی اعلیٰ حضرت کے کمال علم وفن بالخصوص عربی زبان وادب پر دسترس سے متعلق عسی کئی مقالے تحریر فرمائے جو مصر کے مختلف اخباروں میں شامل اشاعت ہوئے مزید برآں انہوں نے ان مقالوں کو یکجا کرکے کتابی شکل میں بھی پیش کیا۔ اپنے ایک قابل قدر مقالے بنام”وجہ الحاجة الیٰ دراسة مولانا احمد رضا خاں” میں ریسرچ اسکالرز کو یوں پیغام دیتے ہیں۔ وللباحثین والدراسین ان یدرسوتراثہ من روایاہ المختلفة وبذالک تکون دراستھم للثراث الاسلامی لھا الشمول والمعوم۔ ”یعنی جو حضرات تحقیقی مزاج رکھتے ہیں اور جو میدان تخصص میں کار نمایاں انجام دینے کے متمنی ہیں ان کے لے امام احمد رضا کے ذہنی وعلمی افکار وخدمات کا گوناگوں طریقوں اور پیرایوں سے مطالعہ اسلامی تراث کی آفاقیت کے لئے ناگزیر ہے۔
٭٭٭