قومی اسمبلی میں ملک پر قرضوں کے مجموعی بوجھ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں ۔ان تفصیلات کے مطابق وطن عزیز 51131 ارب روپے کا مقروض ہے ۔ہر شہری کے حصے میں دو لاکھ سولہ ہزار روپے کا قرض آتا ہے ۔تمام شہری مقروض پیدا ہورہے ہیں ۔وہ لوگ بھی قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں جنہوں نے خود یا ان کے بزرگوں نے کبھی اس قرض کی ایک پائی تک استعمال نہیں کی ۔قومی اسمبلی میں پیش کردہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ مقامی قرضوں کا بوجھ اکتیس ہزار ،چار سو دو ارب روپے ہے ،بیرونی قرض کو ڈالر میں لکھا جاتا ہے جو چھیاسی ارب اکاون کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے ۔قرض کی تفصیلات کو دیکھتے ہوئے یہ امر باعث تشویش ہونا چاہئے کہ وطن عزیز کی مالیاتی و معاشی پالیسیاں تسلی بخش نہ ہونے کے باعث اس بوجھ کے مسلسل بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔ پاکستان کو قرض فراہم کرنے والے بیشتر ممالک اس کی معیشت اور ادائیگی کی صلاحیت سے واقف ہیں۔ ان میں ریاستہائے متحدہ امریکہ ، فرانس، کینیڈا، برطانیہ،چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر بنیادی طور پر امیر، مغربی ممالک شامل ہیں۔ لیکن بہت سے ممالک نے پاکستان کو ایسا کچھ دیا ہے جو حیران کر سکتے ہیں، جیسے سابق جمہوریہ یوگوسلاویہ، چیک سلواکیہ، ہنگری اور رومانیہ۔ لیبیا بھی ایک وقت میں باقاعدہ مالی تعاون کرنے والا تھا۔ لاہور کے پریمیئر کرکٹ وینیو کا نام معمر قذافی کے نام پر اسی لئے رکھا گیا ۔ پاکستان کو غیر ملکی امداد کا ایک بڑا حصہ کنسورشیموں سے آتا ہے۔ کنسورشیم مختلف ممالک کا ایک گروپ ہوتاہے جو اجتماعی طور پر امداد دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں، زیر بحث کنسورشیم پیرس کلب ہے، جو دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کا ایک گروپ ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کسی ملک کا قرض معاف کیا گیا ہو۔ اگر قرض دہندگان خیراتی ہیں توقرض کوری شیڈول کر دیا جاتا ہے یا اسے مقامی کرنسی میں ادائیگی یا کم سود جیسی رعایتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ان نادر واقعات میں سے ایک میں، پاکستان کا قرض نائن الیون حملوں کے فورا بعد کے برسوں میں معاف کر دیا گیا۔ معاف کیا گیا قرض صرف غیر معمولی حالات کی وجہ سے تھا اور بدقسمتی سیایسا دوبارہ نہیں ہوا۔شاید اسی لئے بعد میں آنے والی حکومتوں نے کبھی زلزلے ،کبھی سیلاب اور کبھی کورونا کی وبا آنے پر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض معاف کرانے کی اپیلیں کیں ۔اس طرز عمل نے پاکستان کا وقار دائو پر لگایا۔ پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور یہ یقینی بنانے کے لیے حکومت کچھ مایوس کن اقدامات کر رہی ہے کہ اسے کریش نہ ہو۔ بحران اتنا خراب ہے کہ اس نے واشنگٹن میں اپنے سفارت خانے کی جائیداد فروخت کر دی ہے، اور توانائی کے تحفظ کے لیے شاپنگ مالز، شادی ہالز، ریستوراں اور بازاروں کو جلد بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اگرچہ وطن عزیزکی معیشت گزشتہ چند برسوں سے اچھی حالت میں نہیں ہے، حال ہی میں یہ بحران جی ڈی پی کی شرح میں گراوٹ، یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عالمی افراطِ زر، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے درآمدات کا مہنگا ہونے اور مسلسل سیاسی عدم استحکام جیسے عوامل کے امتزاج کی وجہ سے مزید سنگین ہوا ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، کم اقتصادی ترقی کا مطلب ہے سروس قرضوں کے لیے کم اضافی رقم۔اقتصادی عوامل کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھیں تو گزشتہ برس پاکستان ایک بے پناہ سیلاب کی زد میں آیا۔سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور اس سے ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ ورلڈ بینک نے 28 اکتوبر 2022 کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے ۔سال گزشتہ اکتوبر میں ورلڈ بینک نے آگاہ کیا کہ پاکستان کی معاشی ترقی مالی سال 23 20 میں صرف 2 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ سست ترقی کے علاوہ، ملک کو قیمتوں میں تاریخی اضافے کا بھی سامنا ہے۔ عالمی ادارے نے توانائی کی بلند قیمتوں، کمزور روپیہ، اور سیلاب سے زرعی پیداوار میں رکاوٹوں کی وجہ سے رواں مالی سال میں 23 فیصد افراط زر کی پیش گوئی کی جبکہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہو چکی ہے ۔ مارچ 2023 میں افراط زر کی شرح 46 فیصد سے بڑھ گئی ۔ قرض لے کر ریاستیں اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے کے منصوبے ترتیب دیتی ہیں ۔وطن عزیز میں ایسا نہیں ہوتا ، یہاں قرض کو سیاسی دکانداری چمکانے والے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے ۔قرض لینے کے لئے بنا مناسب تیاری عالمی اداروں سے بات کی جاتی ہے اور پھر ان کی شرائط مانتے ہوئے اپنے لوگوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔یہ صورتحال اس لحاظ سے قطعی حوصلہ افزا نہیں کہ قرض سے سیاسی کامیابیاں سمیٹنے کی خواہاں حکومتوں نے ملک کو قرض سے نجات دلانے کے لئے خاطر خواہ منصوبہ بندی پر دھیان نہیں دیا۔مزید المناک پہلو یہ ہے کہ قرض میں جکڑا ملک ، پارلیمنٹ اور حکومتی ادارے اپنے اخراجات اور پر تعیش طرز زندگی سے کنارا کرنے کو تیار نہیں ۔مدت سے ملک میں کوئی نیا پیداواری منصوبہ نہیں لگا ۔ پی ڈی ایم حکومت معیشت بحالی کا وعدہ کر کے آئی لیکن اب بے بسی کا اظہار کر رہی ہے ۔ غیر سنجیدہ اور استعداد سے محروم انتظامیہ نے خوشحال ملک کو کنگال کر دیا ۔کسی کو تو اس حالت کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔
٭٭٭