توشہ خانہ:مؤثر قانون سازی ضروری!!!

0
195

عدالتی حکم پر وفاقی حکومت نے 2002 سے 2023 تک 466صفحات پر مشتمل توشہ خانہ ریکارڈ سرکاری ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے۔توشہ خانہ ریکارڈ حیرت کی دستاویز ہے ۔اکیس برس میں حکمران اور اعلی سرکاری اہلکاروں نے اپنی جیبیں خوب بھریں۔2002 سے لے کر اب تک جو لوگ حکومت میں رہے انہوں نے خود ان کے خاندان کے لوگوں ان کے ملازمین سرکاری اہلکاروں اور دوروں میں ساتھ جانے والے کچھ صحافیوں نے غیر ملکی تحائف معمولی قیمت ادا کر کے گھر میں رکھ لئے۔اگرچہ تحفے اپنے پاس رکھنے کا جواز حکمران اشرافیہ نے قانون کی صورت میں پہلے سے بنا رکھا تھا لیکن معمولی قیمت کی اشیا سے لے کر انتہائی مہنگی کاروں زیورات گھڑیوں اور نوادرات کی قیمت کا تعین کرنے میں شفافیت کا احساس نہیں ہوتا۔توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں مرحوم جنرل پرویز مشرف سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی راجہ پرویز اشرف عمران خان، نواز شریف اور شہباز شریف کے نام شامل ہیں۔کم مالیت کے بیشتر تحائف وصول کرنے والوں نے بغیر ادائیگی قانون کے تحت اپنے پاس رکھ لئے۔ریکارڈ کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے 2دسمبر 2008 کو 5لاکھ روپے مالیت کی گھڑی ادائیگی کر کے خود رکھ لی جبکہ 26جنوری 2009 کو آصف علی زرداری کو دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں ملیں جن کی مالیت 5کروڑ 78 لاکھ اور دو کروڑ تہتر لاکھ تھی۔ساتھ ہی ایک ٹویوٹا لیکسز ملی جس کی مالیت پانچ کروڑ تھی۔سابق صدر نے یہ تینوں گاڑیاں دو کروڑ 2لاکھ روپے ادا کر کے خود رکھ لیں۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ناصرف خود بلکہ ان کے بھائی بھابی بیٹے بیٹی بھانجے مہمانوں اور ڈاکٹر نے بھی تحفے میں ملنے والی گھڑیاں اپنے پاس رکھ لیں۔میاں نواز شریف کو بطور وزیر اعظم مرسڈیز کار کا تحفہ ملا جس کی مالیت 42لاکھ55ہزار روپے بتائی گئی۔بعد میں نواز شریف نے یہ کار 6لاکھ 36ہزار روپے ادا کر کے اپنے پاس رکھ لی۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے فرزندوں کو انتہائی قیمتی گھڑیوں کے تحائف ملے جو قانونی قیمت ادا کر کے رکھ لی گئیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان کو ستمبر 2018 میں 10کروڑ 9لاکھ روپے کے تحائف ملے جن میں 8کروڑ 85لاکھ روپے کی گھڑی تھی۔عمران خان نے 2کروڑ1لاکھ 78ہزار روپے جمع کروا کر یہ تحائف رکھ لئے۔صدر مملکت عارف علوی اور بیگم ثمینہ علوی شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین پرویز الہی فہمیدہ مرزا ارو چند ایک دوسری شخصیات نے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرانے کی مثال قائم کی۔ ریاست کا اختیار اور عوامی خزانہ آزاد ہونے کے وقت سے ہی لٹتا رہا ہے۔حکومتوں نے ملک کا نظام معیشت عوامی بہبود اور عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے دلچسپی نہیں دکھائی۔پارلیمنٹ کے اراکین عوام کے نمائندہ کہلاتے ہیں ۔یہ منتخب نمائندے ریاست اور عوام کے وفادار رہنے کا حلف اٹھاتے ہیں۔پارلیمنٹ کی کارروائی میں ان کی شرکت اور بطور منتخب نمائندہ ان کی کارکردگی کبھی تسلی بخش نہیں رہی۔سیاسی جماعتوں کو خاندانوں کی گرفت میں دیدیا گیا۔ہر کارکن کے لئے پارٹی اور ملکی آئین کی بجائے پارٹی سربراہ کو راضی رکھنا ضروری ہو گیا۔اس سیاسی ثقافت نے خوشامد ،اقربا پروری اور بدعنوانی کو فروغ دیا۔یہ اسی ماحول کا اثر ہے کہ سیاستدانوں نے اپنے مخالفین کو سیاست سے نکالنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنا شروع کیا۔کردار کشی اور کرپشن کے مقدمات بنائے جاتے رہے۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس دوران کرپشن اقربا پروری اور عوامی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ضائع نہیں جانے دیا جاتا رہا۔ یہ درست ہے کہ غیر ملکی سربراہان اور حکومتوں کی جانب سے ملنے والے تحائف مروجہ قانون کے تحت حاصل کئے جاتے رہے لیکن سینکڑوں صفحات پر پھیلی تفصیلات دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ تحائف کی اصل مالیت کو کم کر کے حکومتی شخصیات واجبی داموں انہیں اپنے گھر لے جاتی رہی ہیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے 15اور 20فیصد کی بجائے مجموعی مالیت کا پچاس فیصد جمع کرا کر تحفہ خریدنے کا قانون بنایا لیکن ان کی خریدی ہوئی گھڑی کے معاملے کو اخلاقی اور قانونی تنازع بنانے کی جو کوششیں کئی ماہ سے جاری تھیں وہ اب دم توڑتی نظر آتی ہیں۔تحقیقات ہونی چاہئیں کہ یہ خریدے تحفے باقی سیاست دانوں نے اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کئے ہیں یا نہیں ۔اور اب یہ کس کے استعمال میں ہیں۔لگ بھگ ہر حکمران نے اس طرح کے نایاب تحفے معمولی رقم کے بدلے خرید کر بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ بہتر ہو گا توشہ خانہ کے متعلق ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ بند کر کے سنجیدہ سیاسی اقدار کی بنیاد رکھی جائے۔ ضروری ہے کہ قوم پر رحم کیا جائے۔توشہ خانہ قوانین نئے سرے سے ترتیب دئیے جائیں۔ پچاس ہزار سے زاید قیمت والی ہر چیز نیلام کی جائے۔خریدنے والے کو خریدی گئی چیز کی مالیت تحفہ دینے والی شخصیت کا نام ملک اور اس کی فنی و تاریخی اہمیت کی تحریر پر مشتمل سرٹیفکیٹ دیا جائے۔ توشہ خانہ کی تفصیلات کے متعلق عدالت نے 1947 سے لے کر 2023 تک کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔حکومت باقی کا ریکارڈ بھی فوری طور پر جاری کرے۔آئندہ کے لئے جب تک موثر قانون سازی نہ ہو کسی کو تحفہ رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تحفے پاکستان کے عوام کو دیے جاتے ہیں حکمران اشرافیہ کسی حالت میں ان کو گھر نہیں لے جا سکتی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here