وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاور سیکٹر اور ایف بی آر کو کرپشن سے پاک نہ کیا گیا تو ملک کی نائو ڈوب سکتی ہے۔ کوئی بھی ملک قانون کی عملداری اور شفافیت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ اقتصادی ماہرین کرپشن کو معیشت کے لئے زہر قاتل قرار دیتے ہیں اور اس بات پر بھی متفق ہیں کرپشن ہمیشہ اوپر سے نیچے سرایت کرتی ہے اس لئے اس کا خاتمہ کے لئے بھی اوپر سے اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ ملک ہو یا ادارہ اگر اس کا سربراہ خود کرپشن نہیں کرے گا تو اپنے ماتحتوں کو بھی نہیں کرنے دے گا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سی پی آئی انڈکس 2023 کی رپورٹ میں شفافیت کے حوالے سے پاکستان کا شمار 190ممالک میں ہے 133ویں نمبر پر ہوتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا کرپشن کے خاتمے پر زور دینا لائق تحسین اور درست ہے ۔ اس سے مفر نہیں کہ ایف بی آر میں بدعنوانی موجود ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایف بی آر میں جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایف بی آر حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ہدف کو کم و بیش حاصل کر رہا ہے البتہ یہ بات درست ہے کہ ایف بی آر اکثر اصلاحات نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے اس کی ذمہ دار بھی ایف بی آر کی افسر شاہی سے ساتھ حکومتیں بھی ہیں اور اس کا ثبوت تحریک انصاف کی حکومت میں 50ہزار سے زائد خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ۔ تحریک انصاف ہی کیوں، ماضی میں جب بھی ٹیکس نیٹ بڑھانے کا جس حکومت نے بھی فیصلہ کیا ایف بھی آر کی افسر شاہی کی پشت پناہی کی وجہ سے تاجروں کی ہڑتال اور دھمکیوں کی وجہ سے عملدرآمد نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم نے ایف بی آر کے ساتھ توانائی سیکٹر میں کرپشن کے باعث ملکی نائو ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو درپیش معاشی بحران میں توانائی سیکٹر کا بڑا حصہ ہے اور اس کی وجہ بجلی اور گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ غریب بجلی کے بل ادا نہ کر پانے کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سماجی اور معاشی ماہرین پاور سیکٹر کے ملکی معیشت پر بوجھ بننے کا ذمہ دار آئی پی پیز کو قرار دیتے ہیں جو اسی لئے بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے تین ایسی آئی پی پیز کو ادائیگیاں کی ہیں جنہوں نے پورا سال ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی۔اس کے علاوہ حکومت نے ماضی میں آئی پی پیز کے ساتھ ڈالر میں ادائیگی اور کیپسٹی پے منٹ ایسی سخت شرائط قبول کرکے توانائی سیکٹر کے ساتھ ملکی معیشت کی تباہی کی بنیاد بھی خود رکھی۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ پوری قوم بجلی کے بلوں سے عاجز آ کر آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی یہاں تک کہ حکومتی اتحادی بھی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ کر چکے ہیں مگر وزیر توانائی ڈنکے کی چوٹ پر معاہدوں میں تبدیلی سے انکار کر رہے ہیں۔ فاقوں کی ماری اس قوم سے ایک ظلم تو یہ بھی ہوا کہ حکومت نے نہ صرف مہنگی بجلی کے معاہدے کئے بلکہ معاہدے کرتے وقت ملک کو بجلی کی ضروت کو مدنظر رکھا گیا نہ ہی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی گئی کہ حکومت جتنی بجلی خریدنے کے معاہدے کر رہی ہے اس کے پاس اس کی ترسیل کی صلاحیت بھی موجود ہے یا نہیں۔ ہمارا بجلی کی ترسیل کا نظام 22سے 24ہزار میگاواٹ کا لوڈ برداشت کر سکتا ہے مگر حکومت نے 43ہزار میگاواٹ خریدنے کے معاہدے تو کرلئے مگر ٹرانسمیشن کی صلاحیت بڑھانے کے اقدامات نہ کئے۔ اگر ٹرانسمیشن لائن میں 43ہزار میگاواٹ لوڈکی صلاحیت ہوتی تو حکومت جن آئی پی پیز کو بغیر بجلی لئے ادائیگی کر رہی ہے ان سے بجلی لے کر انہی وسائل سے غریبوں کو ریلیف اور انڈسٹری کے فروغ کے لئے سستی بجلی فراہم کر سکتی تھی۔ ناقدین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ کیونکہ جن آئی پی پیز کے ساتھ مہنگی بجلی کے معاہدے کئے گئے اور جن کو بجلی کے ادائیگیاں کی جا رہی ہیں ان میں سے 40کے ساتھ ناصرف معاہدے موجودہ اتحادی حکومت کے سابقہ ادوار میں کئے گئے بلکہ ان میں کچھ کمپنیان حکومتی شخصیات کے خاندانوں کی ملکیت بھی ہیں۔ اب دیر آئید درست آئید کے مصداق وزیر اعظم نے ایف بی آر اور توانائی سیکٹر کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم کا اظہار کیا ہے تو بہتر ہو گا وزیر اعظم کرپشن کے خاتمے اقدامات کا آغاز ایف بی آر کے ساتھ دیگر تمام حکومتی اداروں سے کریں۔ کیونکہ سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی کے بغیر کرپشن کے خاتمے کے خواب خواب ہی رہے گا۔ ایف بی آر کو کرپشنکے ساتھ سیاسی مداخلت سے بھی پاک کریں ۔اسی طرح حکومت اگر توانائی سیکٹر میں بہتری کی متمنی ہے تو بہتر ہو گا کر کرپشن کے خاتمے کے لئے شفافیت کو یقینی بنائے اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی سفارش پر عملدرآمد کرتے ہوئے آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کروائے اور بے ضابطگیوں کی صورت میں ذمہ داران کو سیاسی لحاظ کے بغیر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔حکومت اگر غیر ملکی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی نہیں کر سکتی تو حکومتی ملکیت اور پاکستانی مالکان کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کرے اور جو معاہدے ختم ہو رہے ان کی توثیق بھی نہ کرے ۔اسی طرح توانائی سیکٹر اور ایف بی آر سمیت تمام حکومت اداروں کو سیاسی مداخلت اور کرپشن سے پاک کرکے اہداف کے حصول کے لئے آزادی دے تاکہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور ملکی معیشت بحال ہو سکے۔
٭٭٭