فیاض ہمارے ادارے میں کچن کا کام کرتا تھا، کچھ سال ہوئے یہاں سے چلا گیا بلکہ نکال دیا گیا، اخلاق صحیح نہیں تھے، کچن کی چیزیں اپنی سمجھ کر کھا جاتا، طلبہ کے ساتھ رویہ بھی اچھا نہیں تھا، جو بات نرم انداز میں کہی جا سکتی ، اسے سخت الفاظ میں درشت لہجے کے ساتھ کہتا۔ کئی مرتبہ اس کے برے رویے کی شکایات وصول ہوئیں جس کی وجہ سے اس سے معذرت کرنی پڑی۔ طلبہ نے اس کیلیے ایک عجیب سا نام رکھا ہوا تھا اور اسی نام سے اسے پکارتے۔ اس کے جانے کے بعد طلبہ بہت خوش ہوئے اور اب بھی جب اس کا ذکرشروع ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے۔ یار! وہ فیاض؟ اس کی بات نہ کرو۔ بہت نکھٹو اور فضول انسان تھا، مفت خور کہیں کا۔ ہمارے سکول میں ایک استاد پڑھاتے تھے محی الدین۔ اکثر سفید سوٹ پہنا ہوتا، کلاس میں پڑھانے کیلیے آتے تو کپڑوں سے ایک خاص خوشبو آرہی ہوتی ، انداز گفتگو انتہائی نرم، محبت سے پر اور ہمدردی پر مبنی ہوتا۔ طلبہ ان کے سبق کیلیے کھنچ کھنچ کر چلے آتے۔ بہت محنت سے پڑھاتے اور ان کے اکثر طلبہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتے۔ لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے سکول چھوڑ گئے۔ جس دن جا رہے تھے، طلبہ کی آنکھوں میں آنسوں کی ایک لڑی تھی۔ وفورِ محبت میں طلبہ ان کے ہاتھ چوم رہے تھے۔ اب جب ان کا ذکر ہوتا ہے تو طلبہ کی آنکھوں میں ان کی محبت کی چمک دکھائی دیتی ہے، اکثر طلبہ کہتے ہیں کہ :
یار! محی الدین صاحب؟ کیا کمال کی شخصیت تھے، ان کے پڑھانے کا انداز، اخلاق و کردار، طلبہ کے ساتھ خیر خواہی، میٹھے بول اور گہرا مطالعہ رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ یہ دو فرضی کہانیاں ہیں، ان کو آپ الٹ بھی کر سکتے ہیں کہ کچن میں کام کرنے والے فیاض بھائی ایک بے نظیر شخصیت تھے اور پڑھانے والا استاد لا پرواہ اور طلبہ سے نفرت کرنے والا۔
اس طرح کے کردار ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی جگہ نبھا رہا ہے۔ سکول کالج ہوں یا مدرسہ مسجد، دکان تجارت ہو یا آفس ملازمت، گھر ہو یا بازار، پڑوسی ہو یا کسی منزل کا مسافر، ہم یا تو برا کردار play کر رہے ہوتے ہیں یا اچھا۔ اس کا اصل پتا اس وقت چلتا ہے جب ہم وہ جگہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ ہمارے جانے کے بعد لوگ ہمارے بارے میں کیا بولتے ہیں؟ یہ چیز Matter کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے جو دعائیں مانگیں، ان میں سے ایک یہ ہے: و اجعل لِی لِسان صِدق فِی الاخِرِین (اے اللہ!) بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر۔ ( سورت شعرا: 84) اس دعا کے کئی پہلوں ہیں، ان میں سے چند ایک پر بات کرتے ہیں: 1: یہ زندگی آپ کیلیے ایک گاڑی کی مانند ہے جس کو آپ ڈرائیو کر رہے ہیں۔ سفر کے دوران کئی جگہوں پر آپ رکتے ہیں،منہ ہاتھ دھوتے ہیں، کھانا پینا کرتے ہیں اور فریش ہو کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی زندگی کی گاڑی کئی جگہوں پر رکتی ہے، کہیں تعلیم حاصل کرنے کیلیے، کہیں ملازمت اور جاب کیلیے، کہیں محنت مزدوری کیلیے، کہیں تجارت کیلیے، کہیں رشتہ نبھانے کیلیے، کہیں محبت کرنے کیلیے، کہیں کسی کے ساتھ چند قدم چلنے کیلیے، کہیں سے کچھ وصول کرنے کیلیے اور کہیں کچھ بانٹنے کیلیے، کہیں سیرو تفریح کیلیے ، کہیں کسی کی پوسٹ پر کمنٹ کرنے کیلیے ، کہیں ایک دن کیلیے رکتی ہے، کہیں ایک مہینہ یا سال کیلیے اور کہیں لمبے عرصے کیلیے یہ آیت بتاتی ہے کہ جہاں کہیں رکیں، جتنا رکیں ، اللہ سے یہ دعا کریں کہ: اے اللہ! میرے یہاں رکنے کو نیک نامی کا ذریعہ بنا۔ میں یہاں سے چلا بھی جاں تو لوگ میرے بارے میں اچھے اور سچے تبصرے کریں۔مجھ سے بھلائی کے ایسے چشمے رواں ہوں جن سے نسل پر نسل سیراب ہو۔ زمین کا یہ ٹکڑا بولے کہ ہاں وہ ایک انوکھا فرد تھا، اس جیسے دنیا میں کم ہی آتے ہیں، فضائیں اور ہوائیں بولیں کہ ہمارا یہاں سے ہر روز گزر ہوتا ہے لیکن ایسے جسم کو کم ہی چھوا ہے جو اخلاق و کردار کا پیکر ہو، طلوع ہونے والا سورج پکارے کہ مجھے خوشی ہے کہ میں ایسے فرد پر طلوع ہو رہا ہوں جو اپنے بعد لسان صدق (سچی زبان) چھوڑ کر جا رہا ہے۔ رات جس کے اوپر اپنی سیاہ چادر لپیٹنے میں فخر محسوس کرے۔ جس کے جانے پر زمین و آسمان رو پڑیں، درخت آہیں بھریں، چرند پرند اپنے کام چھوڑ کر اس کیلیے رک جائیں کہ ایک خوب سیرت انسان آج ہم سے جدا ہو رہا ہے۔
اے اللہ! کہیں ایسا نہ ہو کہ جب میں یہاں سے جاں تو میرے پیچھے آپ کا قرآن کہے:
فما بت علیہِم السمآ و الارض (سورت دخان: 29)
ان (کے دنیا سے جانے) پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین۔
2: یہ آیت بتاتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو نافع بنائیں یعنی ہمارے وجود سے انسانیت کے نفع کیلیے چشمے جاری ہوں، کسی بے سہارا کا سہارا بنیں، کسی مظلوم کے حق میں کھڑے ہو جائیں، مصیبتوں میں گرے کسی انسان کا ہاتھ پکڑ لیں، کسی کی کمر پہ شاباشی کی تھپکی دے دیں، کسی پست ہمت کی حوصلہ افزائی کرکے اسے بلند ہمت بنا دیں، کسی بے بس کا مقدمہ لڑ لیں، کسی مقروض کا قرض اتار دیں، کسی جاب لیس کو جاب دلوا دیں، کسی اہل کی جائز سفارش کر دیں۔ گویا ہماری دولت سے ، علم سے ، عمل سے ، الفاظ سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ہم یہ سب کچھ اللہ کیلیے کر رہے ہوں، پھر دیکھیے کہ آپ کے جانے کے بعد بھی کیسے بعد والوں میں آپ کی ” لسان صدق (سچی زبان)” پیدا ہوتی ہے۔ لوگ آپ کے بارے میں کہیں گے:
نہ لیصل الرحم، ویحمل الل، ویسب المعدوم، ویقری الضیف، ویعین عل نوائب الحق وہ تو صلہ رحمی کرنے والا، رشتے جوڑ کر رکھنے والا، بوجھ میں دبے لوگوں کا بوجھ اٹھانے والا، محتاجوں، ضرورتمندوں کو کما کر کھلانے والا، مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کرنے والا اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کا مدد گار بننے والا شخص تھا۔ 3: حضرت ابراہیم نے جو دعا کی، اس میں سچی زبان کا لفظ موجود ہے۔ اس لیے کہ وہ نہیں چاہتے کہ میرے جانے کے بعد لوگ میرے بارے میں غلط باتیں پھیلائیں، جھوٹ بولیں، جیسا کہ یہودی اور نصرانیوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی تھے اور مشرکین نے کہا کہ وہ مشرک تھے( نعوذ باللہ)۔ قرآن نے سورت عمران میں اس کا جواب دیتے ہوئے (اور لسان صدق کو واضح کرتے ہوئے) کہا: ما ان اِبرہِیم یہودِیا و لا نصرانِیا و لِن ان حنِیفا مسلِما-و ما ان مِن المشرِِین(67)
ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ اللہ کرے کہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد لوگ ہمارے بارے میں غلط باتیں نہ پھیلائیں، ہمارے بارے میں منفی تبصرے نہ ہوں ، ہمیں نہ کوئی فرشتہ سمجھے اور نہ شیطان۔ بس جتنی ہماری نیکی ہے، اس کا ذکر خیر ہو اور جتنا ہمارا شر ہے، اس سے بعد میں آنے والے بچے رہیں۔
4: ممکن ہے ہمارے وجود سے خیر پھوٹ رہی ہو لیکن کوئی ایسا سبب نہ ہو کہ پوری دنیا اس سے حصہ پائے۔ کتنے لوگ ایسے گزرے جن کے پاس مال و اسباب کی کمی تھی، اس لیے وہ پوری دنیا کا سفر نہ کر سکے لیکن اللہ نے بعد میں آنے والوں میں ان کی نیک نامی پیدا کر دی تو اطراف و اکنافِ عالم میں ان کے چرچے ہو گئے۔ لوگ ان کے اقوال سے ، کتابوں سے، ملفوظات سے، شاگردوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کو دیکھ لیں کہ انہوں نے جو دعائیں مانگیں، اللہ تعالی نے ریکارڈ کر کے قرآن کا حصہ بنا دیں اور آج تک ہم ان دعاں سے اپنی زندگی کی ڈائریکشن صحیح کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
و ترنا علیہِ فِی الاخِرِین(108)سلم عل اِبرہِیم(109)ذلِ نجزِی المحسِنِین(110) (سورت صافات)
اور جو لوگ ان کے بعد آئے، ان میں ہم نے یہ روایت قائم کی (کہ وہ یہ کہا کریں کہ) سلام ہو ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔
اللہ ہمارے لیے بھی ایسی سچی زبان پیدا کر دے کہ ہم رہیں نہ رہیں، ہمارا پیغام لوگوں تک پہنچتا رہے اور لوگ ہمارے لیے سلامتی و رحمت کی دعائیں کرتے رہیں۔
5: جس انسان کیلیے اللہ تعالی سچی زبان پیدا فرما دیتے ہیں، وہ جہاں جاتا یا نکلتا ہے، اس کا جانا اور نکلنا سچائی اور خیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ دعا مانگو:
ربِ ادخِلنِی مدخل صِدق و اخرِجنِی مخر ج صِدق (سورت بنی اسرائیل: 80)
یا رب! مجھے جہاں داخل فرما اچھائی کے ساتھ داخل فرما، اور جہاں سے نکال اچھائی کے ساتھ نکال۔
یہاں تک کہ یہ شخص جب جنت میں جائے گا تو وہاں بھی اس کیلیے جو جگہ تیار کی گئی ہے، اس کو قرآن نے “مقعد صدق” کہا ہے۔ سورت قمر کی یہ آیات پڑھیں:
اِن المتقِین فِی جنت و نہر(54)فِی مقعدِ صِدق عِند ملِی مقتدِر(55)
جن لوگوں نے تقوی کی روش اپنا رکھی ہے وہ باغات اور نہروں میں ہوں گے، ایک سچی عزت والی نشست میں، اس بادشاہ کے سامنے جس کے قبضے میں سارا اقتدار ہے۔
ان آیات سے سبق سیکھا کہ جہاں رہنا ہے، جتنا وقت رہنا ہے (حتی کہ فیس بک پر بھی جب تک لاگ ان رہنا ہے) ، صادق بن کر رہنا ہے تاکہ بعد والوں میں نیک نامی رہے۔
اللہ تعالی ہماری موجودگی میں اور یہاں سے جانے کے بعد ہمارے لیے سچی ناموری پیدا کر دے اور جنت میں سچی منزلوں کا مکیں بنائے۔ آمین۔
٭٭٭