قارئین وطن! آجکل پارلیمنٹ ہائوس سے لے کر لفافہ اینکروں اور صحافی بھائیو ں نے ایک دھوم مچائی ہوئی ہے کہ عمران خان جمہوری قووتوں سے بات کرنا نہیں چاہتا اور غیر جمہوری قووتوں سے معاملہ طے کرنا چاہتا ہے بقول لفافہ اینکر صاحبان ہماری فوج جس کو ہم بڑے پیار سے اسٹیبلشمنٹ پکارتے ہیں غیر جمہوری اور غیر سیاسی ہیں ایک طرف تو عمران اور اس کے پیارے فوج پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ہماری حکومت جو امریکہ کے ساتھ مل کر سازش کے ساتھ حکومت گرائی ہے اور دوسری طرف وہ ان سے این آر او مانگ رہے ہیں اور سیاسی لوگ جو اصل میں جمہوری قووت ہیں ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے- میں اپنے ان دانشوروں اور اینکرز حضرات سے مودبانہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جس طاقت کو غیر سیاسی کہ رہے ہیں وہ اسکندر مرزا کی کابینہ میں اس دن سیاسی بن گئی تھی جب جرنل ایوب خان کو ڈیفنس منسٹر بنایا گیا تھا -وہ دن اور آج کا دن فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے کبھی وہ ماشل لا کی شکل میں خود سامنے ہوتے ہیں اور کبھی فارم کی حکومت کی شکل میں ۔
قارئین وطن! ہمارے لفافہ دانشور جو آج سیاسی حکومتوں سے مذاکرات کا پرچار کرتے ہیں یہی لوگ خاص طور پر آج کے صحآفت کے امام مجیب ارحمان شامی جرنل ضیاالحق کو ماشل لا لگانے کی مبارک باد دے رہے تھے – سیاسی اصول و ضوابط تو یہی کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات سیاست دانوں کے درمیان ہی طے ہونے چاہئیں لیکن کے الیکشن کے بعد سیاسی پنیری جس کو جرنلوں نے پیروں تلے مسک کر دیا اور اپنی پنیری میں نواز شریف اور اسکی چھتری کے نیچے درجنوں بونے پیدا کئے- دوسری کلاس اپنے پیٹی بند بھائیوں مثلا گوہر ایوب اعجاز الحق خاقان عباسی اور ہمایوں اختر جیسے اور تیسری کلاس پیرا شوٹ کے ذریعے معین قریشی اور شوکت عزیز برانڈ مملکت کی توہین کرنے کے لئے اتارے گئے -ان تمام فوج کے نو رتنوں میں کسی کی بھی سیاسی تربیت نہیں تھی ان کو پہلے رتبے ملے بعد میں سیاسی تربیت کی گئی پھر بھی یہ اہل ثابت نہیں ہوئے کے بعد اگر کوئی سیاست دان پیدا ہوا جس کی اس کار زارمیں سال کی مشقت تھی وہ صرف عمران خان ہے – یہ الگ بات ہے کہ جس کی مرضی بڑی سیاسی ریاضت ہے چنا فوجی اور امریکی آنکھ ہی کرتی ہے جیسے نواز شریف کو جب پہلی مرتبہ وزارت اعظمی کے لئے چنا گیا تو امریکی سفیر چار دن نواز شریف کے گھر بیٹھا رہا پھر اس کا کمٹمنٹ کے بعد اعلان کیا گیا اور پھر ذلفیقار علی بھٹو۔
قارئین وطن! مجھ کو بعض صحافیوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ایک لفافہ کے لئے اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں حالانکہ صحافت تو اتنا بلند پیشہ جیسے پیغمبری حسن ایوب کو سن رہا تھا کہ عمران خان سیاسی لوگوں کے بجائے غیر سیاسی لوگوں یعنی فوج سے ڈیل کرنا چاہتا ہے کہ اس کو این آر او مل جائے- اور وہ اندر سے ڈرا ہوا ہے ۔ کاش کے کوئی اس لفافہ صحافی کو بتائے کہ اس کا سیاسی چمپئین نواز شریف کہتا تھا کہ میں کسی سی ڈیکٹیشن نہیں لوں گا لیکن جب جرنل جی ایم ملک نے نوازشریف کے پیٹ پرسوٹی رکھی تو اس نے بغیر کوئی چو چرا کئے اپنے استعفیٰ پر دستخط کر دئیے اور عمران تو پہاڑ کی طرح ڈٹا ہوا ہے جرنل عاصم اور جھتہ کے سامنے گولی کھا لوں گا ڈیل نہیں کروں گا عمران خان زندہ باد۔
٭٭٭