محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے چودہ سو برس گزر چکے واقعہ کربلا کو آج بھی نواسہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی شہادت جوش و جزبے سے منائی جاتی ہے چند اقتباسات و حوالہ جات احادیث و تاریخ کی روشنی میں جس سے سمجھنے میں مدد ملے گی، بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے علم حاصل کریں اور کوئی دن اس سے خالی نہ جانے دیں جب ہم کچھ نیا نہ سیکھیں اب وہ حوالہ جات قارئین کرام کی نذر کرتا ہوں ۔٭عاشورا نیز عاشوری الف مقصورہ کے ساتھ اور عشورا پہلے الف کے حذف کے ساتھ )بھی آیا ہے ۔اسلامی قمری تقویم کے پہلے ماہ محرم الحرام کے دسویں دن کو عاشورہ کہتے ہیں ۔ اردو میں یہ عاشورہ لکھا جاتاہے ۔ بعض لوگ صرف عاشور بھی کہتے ہیں۔ بعض روایات میں نواں دن بھی یوم عاشورا کہلاتاہے ۔ جیساکہ لسان العرب اور فتح الباری میں بھی وضاحت ہے ۔٭حافظ امام ابن حجر القرطبی نے الجامع لاحکام القرآن کے حوالے سے لکھا کہ عاشورا معدول ہے (یعنی اپنی اصل سے ہٹا ہوا ہے) ۔ جو اصل میں عاشر تھا ۔ مبالغہ و تعظیم کے لئے اسے عاشورا بنادیا گیا ہے ۔ عاشورا دراصل لیل العاشر (دسویں رات) کی صفت ہے ۔ گویا جب عاشورا بولا جاتاہیہ تو اس سے مقصود یوم اللیل العاشر مراد ہوتی ہے ۔ یعنی دسویں رات کا دن ۔ ( فتح الباری وغیرہ )٭یوم عاشورا کی تعیین کے سلسلے میں روایات میں اختلاف پایا جاتاہے ۔ بعض روایات سے ثابت ہوتاہے کہ عاشورا محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں ۔ امام ابن حجر نے الزین بن المنیر کے قول کی بنیاد پر کہا ہے کہ اکثر اہل علم کے نزدیک عاشورا سے مراد محرم الحرام کا دسوا ں دن ہے ۔لیکن بعض کے نزدیک اس سے مراد محرم الحرام کی نویں تاریخ ہے ۔ پہلی صورت میں یوم کی اضافت گز شتہ رات کی طرف ہوگی اور دوسری صورت میں یوم کی اضافت آئندہ رات کی طرف ہوگی (فتح الباری وغیرہ تفاسیر متفرقہ )غالبا اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ حضور نبی کریم ۖ نے یوم عاشورا کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے وقت فرمایا کہ یہود چونکہ دسویں محرم کو عید مناتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں اس لئے تم نویں یا گیارہویں محرم کو روزہ رکھا کرو اور فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نویں محرم کو روزہ رکھوں گا۔ (ماثبت من السن ۔ )اس کی تائید حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما والی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو الحکم بن العرج نے ان سے نقل کی ہے ۔الحکم کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا جب کہ وہ زمزم کے پاس اپنی چادر کا تکیہ بنائے لیٹے ہوئے تھے اور میں نے پوچھا کہ مجھے یوم عاشورا کے بارے میں بتائیے کیونکہ میں اس کا روزہ رکھنا چاہتاہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب محرم الحرام کا چاند نظر آئے تو دن گننا شروع کردو اور پھر نوتاریخ کی صبح کو روزہ رکھو ۔ میں نے پوچھا ! تو کیا حضرت محمد ۖ بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہاں (ترمذی شریف مطبوعہ دیوبند)٭حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی اس روایت کی حضور ۖ کا یہی ارشاد ہے کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نویں محرم کو عاشورا کا روزہ رکھوں گا (صحیح مسلم ۔ ماثبت من السن )
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک موقع پر فرمایا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوئے نویں اور دسویں محرم کو دونوں دن روزہ رکھا کرو ( ماثبت من السن )
٭یوم عاشورا کی فضیلت اور س کے روزے کی اہمیت کے بارے مین بھی متعدد روایات رسول اللہ ۖ اور آپ کے اصحاب علیہم الرضوان سے منقول ہیں ۔
٭عاشورا محرم الحرام کے ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ظہور اسلام سے قبل قریش مکہ اس مقدس مہینے کی دس تاریخ کو روزہ رکھتے تھے ۔ ایک روایت کے مطابق حضور نبی کریم ۖ اعلان نبوت سے قبل بھی عاشورہ یعنی دسویں محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔ جب آپ ہجرت فرماکر مدینے تشریف لے گئے تو وہاں بھی دسویں محرم الحرام کا روزہ رکھتے رہے بلکہ روزے کیلئے نویں تاریخ کو بھی شامل فرمالیا۔ یعنی دو دن روزہ رکھتے تھے ۔
٭بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ عاشور کے روز کھانے پینے میں فراخ دستی اور کشادہ دلی سے رزق میں کشادگی اور فراخی ہوتی ہے ۔
٭عاشورہ کے روز ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا تھا۔
٭تاریخی اعتبار سے اس مہینے کو اسلامی مہینوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس کے متعلق حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ ! اللہ تعالی نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ہم کو بڑی فضیلت عطافرمائی ۔
حضور ۖ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے عرش و کرسی ، ستاروں اور پہاڑوں کو پیدا فرمایا ، لوح و قلم اور سمندر عاشورہ کے دن پیدا کئے ۔
جبرائیل اور دوسرے ملائکہ کو عاشورہ کے دن پیدا کیا ۔
حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کو عاشورہ کے دن پیدا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود سے عاشورہ کے دن نجات بخشی ۔
ان کے فرزند کا فدیہ عاشورہ کیک دن دیا ۔ فرعون کو عاشوورہ کے دن غرق کیا۔
حضرت ادریس علیہ السلام کو عاشورہ کے دن آسمان پر اُٹھایا ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے دکھ درد کو عاشورہ کے دن دور کیا۔
حضرت عیسی علیہ السلام کو عاشورہ کے دن اُٹھایا۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بھی عاشورہ کے دن ہوئی ۔
حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی ۔
حضرت داود علیہ السلام کو تاج اسی دن بخشا گیا ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو جن و انس پر حکومت اسی دن عطا ہوئی خود باری تعالی عاشورہ کے دن عرش پر متمکن ہوا۔
قیامت عاشورہ کے دن ہوگی ۔
آسمان سے سب سے پہلی بارش عاشورہ کے دن ہوئی ۔
جس دن آسمان سے پہلی مرتبہ رحمت نازل ہوئی وہ عاشورہ کا دن تھا۔
جس نے عاشورہ کے دن غسل کیا وہ مرض الموت کے سوا کسی بیماری میں مبتلا نہ ہوگا۔ جس نے عاشورہ کے دن پتھر کا سرمہ آنکھ میں لگایا تمام سال اس کو آشوبِ چشم نہیں ہوگا۔
جس نے اس دن کسی کی عیادت کی گویا اس نے تمام اولادِ آدم کی عیادت کی ۔
جس نے عاشورہ کے دن کسی کو ایک گھونٹ پانی پلایا اس نے گویا ایک لمحہ بھی اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کی ۔ (غنیہ الطالبین )
٭عاشورہ کے دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی ۔
حضرت نوح علیہ السلام کشتی سے سلامتی کے ساتھ اترے اور شکریہ کے طور پر روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
بنی اسرائیل کے لئے دریا پھاڑ دیا گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے قید سے نجات پائی ۔
حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکلے ۔
حضرت موسی علیہ السلام پیداہوئے ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کنوئیں سے نکلے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت ملی ۔
عاشورہ کے روز اصحاب کہف کروٹیں بدلتے ہیں ۔
حضرت موسی علیہ السلام جادو گروں پر غالب آئے ۔ (غنیہ ۔ عجائب ۔ نزہ ، تفاسیر و کتب تواریخ متفرقہ)
٭حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور ۖ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے عاشورہ کے دن یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالی اس کے لئے یتیم کے سر کے ہر بال کے عوض ایک ایک درجہ جنت میں بلند فرمائے گا۔ (غنیہ)
٭انیس الواعظین میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ نے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالی کے مہینہ محرم الحرام کی بزرگی کرو۔ جس نے محرم الحرام کی بزرگی کی اللہ تعالیٰ اسے جنت میں بزرگی عطافرمائے گا اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔
٭عاشورہ ایک بزرگ دن ہے ۔ اس میں ہر ایک نیک کام بڑے اجر و ثواب کا موجب ہے ۔ چند نیک کاموں کا ذکر کیاجاتاہے ۔
1۔ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا بڑا ثواب ہے ۔ سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رحم للعالمین ۖ نے ارشاد فرمایا : جو شخص عاشورہ کے دن یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرے گا تو اللہ تعالی اس کے لئے یتیم کے سر کے ہر بال کے عوض ایک ایک درجہ جنت میں بلند فرمائے گا۔
٭ویسے بھی یتیم کے ساتھ محبت و الفت کرنا باعث اجر عظیم ہے خواہ عاشورہ کا دن ہو یا کوئی اور دن ہو۔ حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ شفیع المذنبین ۖ نے فرمایا : جو شخص محض اللہ تعالی کی رضا کیلئے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیریگا تو اسے ہر بال کے عوض نیکیاں ملیں گی جن پر ہاتھ پھیر لے گا اور جو یتیم بچی یا یتیم بچے جو اس کے پاس ہے کے ساتھ احسان کرے گا تو میں اور وہ جنت میں ا ن دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہونگے اور آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا دیا۔ (مشکو )
2۔ عاشورہ کے روز غسل کرنا مرض و بیماری سے بچاو کا سبب ہے ۔ حضور نبی کریم ۖ فرماتے ہیں : جو شخص عاشورہ کے روز غسل کرے تو کسی مرض میں مبتلا نہ ہوگا سوائے مرض موت کے ۔ (غنیہ)
3۔ عاشورہ کے روز گناہوں اور معاصی سے توبہ کرنی چاہئے اللہ تعالی اس روز توبہ ضرور قبول فرماتاہے ۔ سیدنا حضرت موسی علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی اور حکم ہوا ۔ اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ دسویں محرم کو میری بارگاہ میں توبہ کریں اور جب دسویں محرم کا دن ہو تو میری طرف نکلیں یعنی توبہ کریں میں ان کی مغفرت فرماوں گا۔ (فیض القدیر شرح جامع صغیر)
4۔ عاشورہ کے روز آنکھوں میں سرمہ ڈالنا ،آنکھوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے ۔ سید دوعالم ۖ فرماتے ہیں ۔
٭جو شخص عاشورہ کے روز اثمد کا سرمہ آنکھوں میں لگائے تو اس کی اآنکھیں کبھی بھی نہ دکھیں گی ۔ (بیہقی )
حضرت ملا علی قاری رحم اللہ الباری اپنی کتاب موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے روز اآنکھوں میں سرمہ لگانا خوشی کے اظہار کے لئے نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ خارجی لوگوں کا فعل ہے کہ وہ اس میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ حدیث شریف پر عمل کرنے کیلئے اآنکھوں میں سرمہ ڈالنا چاہئے ۔
5۔ عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے واسطے گھر میں وسیع پیمانے پر کھانے کا انتظام کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالی اس گھر میں سارا سال وسعت فرمائے۔ سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جو کوئی عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر نفقہ میں وسعت کرے گا تو اللہ تعالی اس پر سارا سال وسعت فرمائے گا۔ حضرت سفیان ثوری نے فرمایا اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔ (مشکو شریف)
٭حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی رحم اللہ تعالی علیہ اپنی کتاب غنیہ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ہم نے پچاس سال اس کا تجربہ کیا تو وسعت ہی دیکھی۔ (غنیہ جلد دوئم)
٭اسی طرح علامہ مناوی فیض القدیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا جابر صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس کو صحیح پایا ۔ اور سیدنا ابن عیینہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہم نے پچاس یا ساٹھ سال اس کا تجربہ کیا تو وسعت ہی پائی ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس دسویں محرم الحرام کو وسیع پیمانے پر گھر میں راشن ڈالنا چاہئے اور کھانا پکانا چاہئے ۔ پھر اگر وہ خیرات کی طرح بانٹیں تو اور بھی اچھا ہے کہ ڈبل فائدہ کی امید ہے ۔
6۔ عاشورہ کے دن بیمار کی مزاج پرسی کرنا بڑا ثوا ب ہے ۔ محبوب کبریا ۖ فرماتے ہیں ۔ جو کوئی عاشورہ کے دن بیمار کی عیادت کرتاہے گویا کہ اس نے تمام بنی آدم کی عیادت کی ۔ (غنیہ)
7۔ عاشورہ کے روز لوگوں کو خصوصا فقرا کو پانی یا دودھ شربت وغیرہ پلائے تو بڑا ثواب ہے ۔ رحم عالم ۖ نے فرمایا جو عاشورہ کے روز (لوگوں کوپانی پلائے تو گویا اس نے تھوڑی دیر کے لئے اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کی ۔(غنیہ)
٭اس روز عظیم کے اور بھی بے شمار فوائد و فضائل ہیں جن کا بیان ہوتا رہے گا اللہ کریم ہم سب کو اس مبارک دن کی تعظیم کرنے اور عمل صالح کی توفیق مرحمت فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ۖ ۔
باقی ان شا اللہ جلد یا اگلی قسط میں بیان کیا جائیگا
والسلام
سید کاظم رضا نقوی
٭٭٭