نور ہدایت!!!

0
99

نور ہدایت!!!محترم قارئین!ہر طرف حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت قربانی کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ہر مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق اس جذبہ کا عملی مظاہرہ کرنے کے لئے تیار ہے۔کیوں نہ ہو؟قربانی دین کی شان اور اسلام کا بڑا نشان ہے۔یہ عمل تمام انبیاء کرام علیھم السلام کی سنت ہے اور پروردگار عالم جل جلالہ کے دربار میں بندوں کی بہترین عبادت ہے یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء ومرسلین علیھم السلام کی اُمتوں کے لئے قربانی کا حکم نازل ہوا ہے۔ارشاد ربانی ہے ترجمہ:”ہر ایک اُمت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کردی تاکہ وہ بے زبان جانوروں پر اللہ کا نام ذکر کریں۔یعنی ذبح کرتے وقت”(سورہ حج پارہ نمبر17)قربانی بظاہر اللہ تعالیٰ کے نام پر ایک جانور کو ذبح کر دینے کا نام ہے لیکن یاد رہے کہ قربانی کا مقصد صرف قربانی کے جانوروں کو ذبح کر دینا ہی نہیںبلکہ درحقیقت قربانی کی روح یہ ہے کہ بندہ ایک خاص فدا کارانہ جذبہ اخلاص سے اپنے قلب دماغ کو منور کرکے اپنے اندر ایثاروفدا کاری، ایمان داری، ونیکو کاری تقویٰ و پرہیز گاری کا کمال پیدا کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:”ہرگز خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں نہ قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون لیکن ہاں البتہ تمہاری پرہیز گاری وہ انمول نیکو کاری ہے جو دربار باری میں باریاب ہوجاتی ہے”(سورہ حج پارہ نمبر17)جانتا ہے بارگاہ حق کے آئین واصول دل کے ٹکڑوں کی یہاں پر نذر ہوتی ہے قبول یہی وجہ ہے کہ ہر عمل خیر کی طرح قربانی میں بھی اخلاص کا جذبہ شرط ہے۔مگر افسوس ہے کہ ہم مسلمان صرف خون کے چند قطرے بہا دینے ہی کو قربانی سمجھ بیٹھے ہیں۔اور ہم خلیل اللہ اور دوسرے جلیل القدر پیغمبروں کی اس سنت مبارکہ کے مقصد اعلیٰ کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔قربانی کے اغراض ومقاصد اور اس کے ثمرات ونتائج کیا ہیں؟بہت کم ایسے اہل نظر ہیں جو قربانی میں چھپے ہوئے جذبات و وفاداری وفداکاری کے جلوئوں کا نظارہ کرسکیں۔ہاں البتہ وہ بندگان خدا جن کی آنکھوں میں بصارت کی روشنی کے ساتھ بصیرت دل کا نور بھی موجود ہے ،وہ جانتے پہچانتے اور مانتے ہیں۔
جب تک ابراہیم کی فطرت نہ ہو پیدا
قربانی بھی آذر ہے عبادت بھی ہے نمرود
یہ بہت ہی اہم اور ضروری چیز ہے کہ مئومن ہر چیز کو آنکھوں کی بصارت سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ دل کی بصیرت کے نور سے بھی مشاہدہ کرتا ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے یعنی علامہ محمد اقبال دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ،میں بھی کہہ رہا ہوں مگر یہ حدیث کلیم وطور نہیں ظاہر میں نگاہیں تو یہ دیکھتی ہیں کہ قربانی میں بندے کا مال خرچ ہوتا ہے لیکن قربانی کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ جو چیز بھی خدا کی راہ میں قربان کی جاتی ہے ،وہ ہرگز کم نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جو جانور خدا کے نام پر ذبح کئے جاتے ہیں ان کی نسل میں بے پناہ برکت اور ان کی تعداد میں بے شمار اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے قربانی کے لئے پیاری سے پیاری اور محبوب سے محبوب ترین چیز کا حکم ارشاد فرمایا ہے چنانچہ فرمایا:”اس وقت تک تم نیکی کو ہرگز نہیں پائو گے جب تک اپنی محبوب چیز خرچ نہ کرو۔(پارہ نمبر4سورہ آل عمران)کبھی غور کیا جائے کہ گائے بھینس، اونٹنی سال بھر میں ایک بچہ جنتی ہیں یعنی سب کے ہاں ایک ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔بھیڑ، بکری بھی بمشکل دو یا تین بچے سال بھر میں دیتی ہیں۔یعنی ہر ایک کا یہ رزلٹ سالانہ ہوتا ہے ان جانوروں کی پیداوار بہت ہی کم ہوتی ہے اور خرچ کا یہ عالم ہے کہ ملک بھر میں اور پھر دنیا بھر میں لاکھوں بھیڑ، بکریاں اور گائے، بھینس وغیرہ ذبح ہوتی ہیں اور ہزاروں بیمار ہو کر مر جاتی ہیں۔مگر پھر بھی ان جانوروں کی نسل میں اتنی برکت ہے۔کہ آج ایک ایک میدان میں ہزاروں بھیڑ، بکریوں کا ریوڑ دیکھنے میں آتا ہے اور اسی طرح سو سو دو دو سو گائیوں اور بھینسوں کو چراگاہوں میں اکٹھا ایک جگہ چرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔مگر کتیا سال میں پانچ پانچ اور چھ چھ بچے جنتی ہے اور خنزیر کے تو دس دس اور بارہ بارہ بچے ایک ہی مرتبہ میں پیدا ہوتے ہیں ان جانوروں کی پیداوار کتنی زیادہ اور خرچ بہت کم یا بالکل ہی نہیں مگر پھر بھی کہیں سو سو اور دو دو سو کتے اور ہزار دو ہزار خنزیر ایک جگہ نظر نہیں آتے۔اب یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ کیا وجہ ہے کہ گائے، بھینس، بھیڑ اور بکری باوجود یکہ ان کی پیداوار بہت ہی کم اور خرچ بہت ہی زیادہ ہے پھر بھی ان کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور کتے، خنزیر وغیرہ حرام جانوروں کی تعداد پیداوا کی صورت میں زیادہ ہونے کے باوجود کم اس لئے ہے کہ ان کی قربانی نہیں ہوتی۔لہذا اس قانون فطرت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو چیز بھی خدا کی راہ میں قربان کی جائے گی وہ ہمیشہ بڑھتی اور ترقی کرتی رہے گی اور قربان نہ ہونے والی چیز گھٹتی اور تنزل کا شکار ہوتی رہے گی۔اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here