محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ہمیشہ کی طرح آپ کی خدمت میں متفرق مسائل کو لکھ کر پیش کرتا ہوں اور اپنے دل کی آواز کے ساتھ ہی عوامی مسائل پر گفتگو کرکے اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔آجکل ہر گھر کا ایک عجیب مسئلہ ہوگیا ہے کہ انسان ایک چھت کے نیچے رہ کر بھی گھر میں رہنے والے افراد سے دوری کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ موجود آسائشوں کا بے دریغ استعمال اور اس کے سحر میں جکڑ جانا ہے۔ جس وقت موبائل فون مارکیٹ میں آیا اس وقت یہ ایک رئیسوں کے استعمال کی چیز لگتا تھا لیکن جس تیزی سے اس نے ارزاں ہوکر عام آدمی اور گھر کے تمام لوگوں تک رسائی حاصل کی اور پھر وقت کی ضرورت بن گیا۔ شروع میں تو والدین کو اطمینان ہوا کہ اب اپنے بچوں سے جب چاہے رابطہ کرسکتے ہیں، ان سے بات کرسکتے ہیں، ہدایات دے سکتے ہیں اور یہ کوئی بہت ہی مفید سائنسی ایجاد کے طور پر گھروں میں مقبول ہوا ۔اس وقت تک اس کے مضر اثرات کا اندازہ ہرگز نہیں ہوا لیکن اس وقت پانی سر سے اوپر جاچکا تھا !!
بچوں نے پہلے تو اس پر ویڈیو گیم کھیلنا شروع کیئے اور اس کی ایسی لت سوار کی کہ دنیا سے کچھ بچوں کی اموات رپورٹ ہوئیں۔ برطانیہ نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ بچوں کی اس عادت کو مرض کا درجہ دیا جائے اور لت کا علاج دوا سے کیا جائے۔ جو اس کا منافع بخش حل ہے اس کے بعد نوجوانوں میں غیر اخلاقی کلپس اور مواد جس میں عام گھریلو لڑکیوں سے زیادتی اور بلیک میلنگ کی ویڈیوز سے لے کر اعلی حکومتی عہدیداروں بشمول ججز کی ایسی کلپس وائرل ہوئیں کہ خواتین کے ساتھ مرد بھی اس کے ظلم کا شکار نظر آئے !
اس حوالے سے سائنس کی دنیا میں گوہر علی رضوی کا درج ذیل اقتباس اور کلپ بھی وائرل ہوا جس میں انہوں نے جو گفتگو کی وہ یہ تھی ۔
سوشل میڈیا نے جہاں ایک طرف ہمیں بہت سی معلومات تک رسائی دی ہے وہیں کئی نئے مسائل بھی پیدا کئے ہیں۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام کے فروغ پاتے ہی نفسیاتی مسائل میں ایک نئے مسئلے کی شمولیت ہوئی جو کہ نیٹ ایڈکشن کہلاتی ہے خاص طور سے فیس بک ایڈکشن۔ لیکن سوشل میڈیا کو بطور روزگار اختیار کرنیوالے افراد کے لیے بھی یہ کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کو پیدا کر رہا ہے۔ راتوں رات مشہور ہوجانیوالے افراد کی مثالوں سے اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ کوئی فالتو وقت کا مشغلہ ہے جو بیٹھے بیٹھے بغیر محنت کے لوگوں کو مشہور بھی کردیتا ہے اور پیسے کے ڈھیر بھی لگا دیتا ہے۔ جبکہ یہ شہرت سوشل میڈیا خاص طور سے یوٹیوب چینلز کی ایک بہت قلیل تعداد کو میسر آتی ہے۔ یہاں کمپٹیشن اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کسی بھی بندے کو اپنی عام زندگی میں یا ٹی وی فلم پہ کام کرنیوالے اداکاروں اور فنکاروں کو دیکھنا پڑتا ہے۔
مندرجہ بالا بیان کی روشنی میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ معاملہ کتنا گھمبیر ہوچکا ہے اس کی منہ زوری یہاں نہیں رکی بلکہ مختلف اطراف میں اپنی اقسام کی افادیت اور نقصانات لیئے انسٹاگرام ، فیس بک، واٹس آپ اور دیگر ٹوئٹر وغیرہ پر ایک نہ ختم ہونے والا اژدھام بڑھتا چلا گیا۔ واٹس آپ گروپس میں جو کزن کزن اور سجن سجن محبت نامے رشتہ داریاں جوش مارتی نظر آئیں وہیں ان کے دل و دماغ میں ابلتے آتش فشاں تلخیوں کا باعث بنے۔ اس میں سب سے کم متاثر بزرگ ہوئے جن کو موبائل چلانا نہیں آتا تھا اور وہ اس سنگدل دنیا میں مذید تنہائی کا شکار ہوگئے !
آج کی دنیا میں اگر میں اپنی ذات اور گھر تک ہی محدود رہ کر سوچوں تو اپنے بچوں کی تعلیم ، میڈیکل انشورنس ، بلوں کی ادائیگی ، بنکنگ ، شاپنگ ہر کام کیلئے مجھے انٹرنیٹ اور سوشل الیکٹرانک دنیا کا رخ کرنا پڑتا ہے اگر ایک دن کیلئے بھی فون دور کردیا جائے تو لگتا ہے پوری دنیا سے رابطہ ختم ہوچکا ہے بچوں کو انفارمیشن سے دور نہیں رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی خود کو۔ سوچنا صرف اہل عقل و دانش کو اتنا ہوگا کہ جتنے نقصانات اور اس کا لطف ہم زندگی میں ان آسائشوں کا اٹھا رہے ہیں اتنا کافی ہے یا اس بپھرتے منہ زور بے قابو ہوتے سوشل میڈیا کے استعمال کو کنٹرول میں رکھ کر فائدہ اٹھایا جائے اور اس پر ضائع ہونے والے وقت کو کسی تعمیری کام میں لگایا جائے۔ کہیں کرونا اور یہ مل کر دنیا میں فربہ ہوتے جسموں کا نیا سائز نہ متعارف کرادیں۔ اس سے پہلے کہ یہ مسائل ہاتھ سے نکل جائیں ان کو ایسا کوئی ہے جو نکیل ڈالے اور گھر میں موجود بچوں کو صدائیں پہنچ جائیں جو اب فون کے ذریعے ہی پہنچ پاتی ہیں۔ اس موضوع پر مذید لکھا جائیگا اور ابھی کچھ مذید گفت گو باقی ہے اگلے ہفتے تک اجازت دیجئے۔!