6 ستمبر پی ٹی آئی امریکہ کے الیکشن میں بھی ایک یادگار دن کے طور یاد کیا جائے گا کہ اس دن پی ٹی آئی کے آنیوالے سالانہ الیکشن کی ووٹر رجسٹریشن مکمل ہو گئی۔ اوورسیز انٹرنیشنل چیپٹر کے سیکریٹری جناب ڈاکٹر عبداللہ ریار صاحب کے مطابق اس دفعہ پہلے کی نسبت پینتیس فیصد زائد لوگوں نے ووٹ رجسٹرڈ کروائے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ پی ٹی آئی کی ممبر شپ فیس ساٹھ ڈالرز ہے جس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ ممبر شپ فیس کی مد میں جمع کی جانیوالی رقم کو ایک طے شدہ اور لیگل طریقے سے پاکستان تحریک انصاف پاکستان کے فنڈز میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا سے صاف اور شفاف طریقے سے بھیجی گئی ممبر شپ فیس سے پی ٹی آئی اپنے انتظامی امور سرانجام دیتی ہے۔ اس طرح سے پاکستان میں ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے کہ جس سے سیاسی پارٹیوں میں ضبط، تحمل، جمہوریت اور سیاسی رواداری فروغ پائے۔ یہ اعزاز بھی عمران خان کی تحریک انصاف کو ہی حاصل ہونا تھا۔ امریکہ میں اس دفعہ پانچ ہزار کے قریب ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں ساڑھے گیارہ ہزار اور سعودیہ میں نو ہزار کے قریب جبکہ پوری دنیا میں پاکستان کے علاوہ پی ٹی آئی کے تقریباً پچاس ہزار رجسٹرڈ ممبرز بن چکے ہیں جو کہ ایک ریکارڈ بھی ہے۔ یہ ممبرز اپنے اپنے ملکوں میں او آئی سی کے بنائے ہوئے الیکشن کمیشن کے تحت الیکشن میں حصہ لیتے ہیں ہیں اور پارٹی میں اپنے نمائندہ لیڈر منتخب کرتے ہیں۔ بہت سے پی ٹی آئی کے ورکرز ان الیکشن کے حق میں نہیں ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں اور ایک حد تک ٹھیک ہی سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں پینلز ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے ہیں، آپس میں نفرت بڑھتی ہے، ابھی ہم اتنے میچور نہیں ہوئے کہ الیکشن الیکشن کھیلیں۔ راقم کو نہ صرف الیکشن میں حصہ لینے کا تیس سالہ تجربہ ہے بلکہ وہ انکی فیزیبیلیٹی رپورٹس بھی مرتب کرتا رہا ہے اس بابت پہلے بھی الیکشن اصلاحات دیتا رہا ہے اور عقیدہ راسخ ہے کہ پی ٹی آئی میں الیکشن ہوتے رہنا چاہئیں تاکہ پارٹی میں جمہوری عمل برقرار رہ سکے۔ پارٹی میں جمہوری روایات پروان چڑھ سکیں اس طرح سے جمہوریت ملک میں بھی نافذ ہو گی۔ ہاں طریقہ کار بدل دیا جائے میری ارباب اختیارات سے گزارش اور تجویز ہے کہ الیکشن میں پینل ڈالنے کی بجائے ہر امیدوار انفرادی طور پر الیکشن میں حصہ لے اور جو امیدوار سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرے وہ اپنی سٹیٹ یا نیشنل لیول پر صدارت دوسرے نمبر پر آنیوالا نائب صدر تیسرے نمبر پر آنیوالا جنرل سیکریٹری اور چوتھے نمبر پر آنے والا امیدوار ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر فائض ہو جائے۔ اس طرح سے کوئی شور شرابہ نہیں مچے گا کسی کی حق تلفی بھی نہیں ہوگی اور ہر امیدوار دل سے ووٹ بھی رجسٹر کرائے گا جو کہ اسکا اولیں مقصد بھی ہے۔ کابینہ کے مزید ممبرز بھی اسی طریقے سے چنے جا سکتے ہیں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آپس میں تلخیاں بھی پیدا نہیں ہونگی اور بہتر لیڈر شپ سامنے آئے گی جس طرح فدوی نے سے الیکشن پروسیس کو شروع کرنے بارے بھی تجاویز دیں تھیں اور میری تجاویز پر عمل بھی ہوا تھا۔ امید ہے اس اچھی اور قابل عمل تجویز کو بھی در خور اعتنا سمجھا جائے گا۔