بیجنگ(پاکستان نیوز) چینی کمپنیوں نے سی پیک کے تحت پاکستان میں 28 ارب ڈالر کے نئے منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں گوادر میں آئل ریفائنری، ملک میں فائبر آپٹک کا نیٹ ورک، موبائل فون بنانے کے کارخانے سمیت 16 منصوبے شامل ہیں۔ اردو نیوز کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے اس سال فروری میں چین کے دورے میں پاکستان میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے حوالے سے متعدد منصوبے زیر غور آئے تھے۔ ان میں سے سب سے بڑے منصوبے کی تجویز دو چینی کمپنیوں کے کنسورشیم نے پیش کی ہے جس کے تحت گوادر میں 19 ارب ڈالر کی لاگت سے متعدد ریفائنریز اور کارخانے لگائے جائیں گے۔ ان میں پیٹروکیمیل اور انڈسٹریل پارک پسنی شامل ہے جس میں آئل ریفائنری، سیمنٹ پلانٹ، واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ اور بجلی کے کارخانے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ گوادر میں ہی ساڑھے چار ارب ڈالر کا ری سائیلکنگ پارک لگانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ اس کے تحت لوہے، دھات اور کاغذ کے دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے پلانٹ لگائے جائیں گے تاکہ انہیں برآمد کیا جا سکے۔ دلچسپ بات ہے کہ اسلام آباد میں پانچ ہزار گھر بنانے کا بھی ایک منصوبہ چین کی سرکاری کمپنی نے تجویز کیا ہے۔ کراچی کی مچھر کالونی میں کوسٹل زون کی تعمیر کا منصبوبہ بھی 35 لاکھ ڈالر کی لاگت سے زیر غور ہے۔ چینی کمپنیوں کی طرف سے مجوزہ منصوبوں میں ایک کیڑے مار ادویات کی تیاری کا پلانٹ، مرغیوں اور مویشیوں کی خوارک کی تیاری کا کارخانہ اور مکئی و سویابین کی صنعتی پیمانے پر کاشت کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آٹھ کروڑ لاگت سے بھینسوں کے دودھ کے لیے فارم اور پھر ملک پراڈکٹس کی پراسسنگ فیکٹری بھی لگانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے 55 کروڑ ڈالر کا منصوبہ بھی حتمی شکل پانے کا منتظر ہے۔ اسی کمپنی نے ایل این جی کو ذخیرہ کرنے کا پلانٹ بھی لگانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کے شعبے میں کئی منصوبے زیر غور ہیں جن میں ملک کے تمام بڑی شہروں میں ایک لاکھ کلومیٹر تک فائبر کیبل نیٹ ورک بچھانے کا بڑا منصوبہ شامل ہے۔ اس منصوبے پر دو ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری، اسمبلی اور فیبریکیشن پلانٹ بھی لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے خصوصی ٹیکنالوجی زون میں موبائل فونز کی اسیمبلنگ اور پرزہ جات بنانے کا کارخانہ بھی لگایا جائے گا۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت نے دعوی کیا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں سی پیک منصوبے تعطل کا شکار رہے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار سست ہونے کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ کورونا کے باعث سی پیک میں کچھ مسئلے آئے، لیکن اب سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اردو نیوز کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان اور چین کیدرمیان اقتصادی راہداری کے اربوں ڈالر کے منصوبے گزشتہ دور حکومت میں نہ صرف تعطل کا شکار ہوئے، بلکہ چند منصوبوں پرکام شروع ہی نہ ہو سکا اور صنعتیں لگانے کے لیے مختص ایک بھی خصوصی معاشی زون پر کام مکمل نہیں ہو سکا۔ دستاویزات کے مطابق سی پیک کے دونوں ممالک کے درمیان صنعتی تعاون کا سب سے اہم منصوبہ نو خصوصی معاشی زونز تھے جہاں پر چینی کمپنیوں نے صنعتیں لگا کر پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور روزگار فراہم کرنا تھا۔ ان سپیشل اکنامک زونز کو اب تک مکمل ہونا تھا تاہم دستاویزات کے مطابق ایک بھی منصوبے پر کام مکمل نہیں ہو سکا۔ ان منصوبوں پر تاخیر کے حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے سی پیک اتھارٹی کے اہم عہدیدار کا کہنا تھا کہ خصوصی معاشی زون کا تصور اس لیے پیش کیا گیا تھا کہ ترقی کرتے ہوئے چین کو سستی لیبر کے ساتھ اپنی صنعت کہیں نا کہیں منتقل کرنا تھی تو پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔ تاہم اس مقصد کے لیے چینی سرمایہ کاروں کو کاروبار کی مکمل سہولیات ملنا لازمی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس زون میں وہ سرمایہ کاری کریں وہاں ان کو بجلی، گیس، زمین اور دیگر سہولیات ون ونڈو کے تحت دستیاب ہوں، لیکن پاکستان میں ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی کم ہوئی۔