قارئین وطن ! کالم لکھنے بیٹھا تو 6 ستمبر 1965ء کا دن میرے ذہن کوجھنجھوڑنے لگا ۔اْس دن صبح 11 بجے لاہور میں بمبوں کے دو زور دار دھماکوں کی آواز آج بھی میرے کانوں میں زندہ ہے۔ میں اور میرے دوست کوئینز روڈ کی جانب دوڑے جب وارث روڈ فوجی قلعہ سے نمودار ہونیوالے فوجی ٹرک نعرہ تکبیر اللہ ہو اکبر کا نعرہ بلند کرتے واہگہ باڈر کی طرف ہندو کی یلغار روکنے کیلئے بڑھ رہے تھے۔ ہم سب نوجوان ہماری عمریں 10 یا 12سال سے زیادہ نہ تھی۔ میری قیادت میں اپنے فوجی بھائیوں کے قافلہ میں شریک ہونے کیلئے اسمبلی ہال تک ان کے ٹرکوں کے ساتھ بھاگتے رہے۔ وہ ہمارے دفاع کیلئے بڑھ رہے تھے اور ہم واپس گھر کی جانب مڑے۔ تقریباً 12 یا ایک بجے دوپہر ریڈیو پاکستان سے فیلڈ مارشل ایوب خان کی آواز گونج رہی تھی کہ ہندو کو معلوم نہیں اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ بس پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی افواج نے اپنے سے چار گنا بڑے دشمن کو دھول چٹائی۔ بری ، بحری اور فضائی جوانوں نے 17 دنوں کی اِس جنگ میں بہادری اور شجاعت کے وہ کرتب دکھائے کہ آج جب اْن کی یاد آتی ہے ہاتھ سلوٹ کیلئے اٹھتے ہیں اور سر احترام میں خم اور اْس وقت کا میرا فیفرٹ نغمہ
دودھ پیتے نے ماواں پٹھانیاں دے
پْت ہونے آں اسی پنجابیاں دے
گنگنانے کا دل کرتا ہے
قارئین وطن ! ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ ایوب خان جس کی گرج دار آواز پر پوری قوم نے تمام اپنے سیاسی اختلاف بھلا کر اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی اور جنگ جتائی لیکن وہ تاشقند کی سیاسی میز پر جنگ ہار گیا۔ بس اْس کے بعد ہماری 6 ستمبر کی کامیابی کو خود بری اور ہوائی کمانڈروں نے بیرونی اشاروں پر کام کرنیوالوں نے ہماری جیتی ہوئی جنگ کو شکست سے تعبیر کیا۔ ان مردودوں کا نام لکھنا وقت کا زیاں ہے اور آج تو فیشن بن گیا ہے کہ فوج کو گالیاں دو۔ـ میں ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے جانتا ہوں کہ ہماری فوج سے بہت سی سیاسی غلطیاں سر زد ہوئی ہیں اور انہوں نے چار ماشل لا بھی لگائے اور اس کے نتیجہ میں نواز شریف جیسا ڈفر لیکن کرپشن کے معاملے میں استاد پیش کیا اور اْسی طرح آصف زردار ی جیسے کرپشن کنگ کو مملکت پاکستان کا صدر بنا کر پیش کیا اور اس کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے جرم کئے لیکن آج جب میں پاکستان کے سیاسی معاملات کو بین الاقوامی تناظر سے دیکھتا ہوں کہ کس طریقے سے امریکن سی آئی اے، برطانیہ کی ایم سکس، اسرائیل کی موساد اور بھارت کی را نے میرے ملک کو گھیرا ہوا ہے۔ تو اللہ کا شکر اداکرتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک مضبوط فوج موجود ہے اور ہمارا دفاع طاقت ور فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہے اور خاص طور پر ہماری آئی ایس آئی دنیا کی مانی ہوئی جاسوسی آرگنائزیشن ہے۔ جس کی تازہ مثال افغانستان کی کامیابی ہے لیکن پاکستان کے ٹکڑوں پر پلنے والے سیاسی گماشتے نواز شریف جیسے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر افواجِ پاک پر اپنی غلاضت کی برسات کر رہے ہیں بلکہ ایک طویل قطار ہے ایسے نمک حراموں کی جو صبح شام سلیکٹر جیسا پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ لیکن میں امریکن سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے میرا ایمان پختہ ہو گیا ہے افواج کی کچھ کمزوروں کے باوجود یہ ہی ہماری سرحدوں کے محافظ ہیں ورنہ ملک میں پھیلے ہوئے ففتھ کالمسٹ تو وطن کی سا لمیت کو داؤ پر لگانے کیلئے پیش پیش ہیں۔
قارئین وطن! آج نواز شریف اور اْس کی پتری مریم صفدر تو ہیں ہی ” بیڈ کو پس ” لیکن ” گڈ کوپ” شہباز شریف کوئی ایسا دن جانے نہیں دیتا ہے جب وہ اْن سلیکٹروں کے پاؤں پڑ نے کی کوشش کرتا لیکن بوٹ اتنے سخت چمڑے کا بنا ہوا ہے کہ ہاتھ نہیں پڑ رہا ہے۔ـ لیکن آج مزا تو ٹاک شو پر دو سیاسی ملازم طلال چوہدری اور ڈاکٹر فضل چوہدری کی دو ریٹائیرڈ جرنلوں جرنل امجد شعیب اور جرنل اعجاز اعوان کہ ساتھ منہ ماری کا تماشہ دیکھا۔ آئین کی دھجیاں اْڑانے والے آج آئین کی بالا دستی کی باتیں جرنلوں پر چیخ چیخ کر کر رہے تھے لیکن یہ چیخ و پکار اْس وقت ہو رہی تھی جب دونوں فوج کی نوکری سے ریٹائیر ہو چکے تھے۔ طلال چوہدری اور فضل چوہدری تمہاری دلیری کا مزا اْس وقت آتا جب وہ پوزیشنوں کے مالک تھے۔ اْس وقت تو ان کی جوتیوں میں بیٹھ کر بڑے بننے کی بھیک مانگتے تھے۔ تم لوگ اور تمہارے صاحب لوگ جو آج بھی یہ ہی کر رہے ہیں۔ تم لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ چوروں ڈاکوں اور خائین لوگوں کا دفاع کر رہے ہو۔ سیاست میں اچھی پوزیشن تو صرف چور کو چور کہنے سے ہی بنتی ہے ،صاحب کہنے سے نہیں بنتی۔ ریٹائر فوجیوں کے سامنے چیخ چیخ کر کوئی بہادری نہیں ہے۔ آج6 ستمبر ہے شہیدانِ وطن کو سلام عقیدت پیش کرو کہ جن کی وجہ سے قائد اعظم کے پاکستان میں زندہ ہیں ۔ پاک فوج کو سلام ۔