گزشتہ مضمون میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ سب یہودی صیہونی اور اسرائیل پرست نہیں ہیں۔ایک یہودی مذہبی طبقہ اپنی حکومت کو غاصب سمجھتے ہوئے فلسطینیوں سے چھینی زمین کی واپسی اور جیو اور جینے دو کی وکالت کرتا ہے۔ بینی مورس ، ایوی شلوم اور ایلان پاپے سمیت متعدد اسرائیلی تاریخ داں عرب دشمن پالیسیوں کے شدید ناقد ہیں۔اسرائیلی پارلیمنٹ میں بھی مختلف ادوار میں یوری ایونری سمیت ایسے ارکان منتخب ہوتے رہے جو فلسطینی حقوق کی حمائیت کے سبب ریاستی غدار سمجھے گئے۔ اگر ایک جانب نیتن یاہو کے سابق سیکیورٹی ایڈوائزر میجر جنرل ریٹائرڈ گیورا ایلاند جیسے نسل پرست ہیں جن کے شمالی غزہ کو فلسطینیوں سے مکمل پاک کرنے کے جنرلز پلان پر نسل کش حکومت مکمل عمل کر رہی ہے تو دوسری جانب سابق جرنیلوں ، انٹیلی جینس اور پولیس کے ریٹائرڈ اہلکاروں پر مشتمل ایک سو اسی عمل داروں کا ایک گروپ نیتن یاہو کی نسل پرست متشدد پالیسیوں کو اسرائیل کے جغرافیائی و سیاسی مستقبل کے لیے بقائی خطرہ سمجھتا ہے۔ اس گروپ میں دیگر کے علاوہ موساد کے سابق چیف تامیر پاردو ، سابق سپاہ سالار اور وزیرِ دفاع موشے یالون ، شن بیت کے سابق ڈائریکٹر کارمی گیلون، میجر جنرل ریٹائرڈ نوم تبون ، سابق پولیس چیف موشے کرادی بھی شامل ہیں۔بہت سے ریزرو اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں اپنے تعیناتی کے بعد فوج سے استعفی دے دیا۔ان کا ایک گروہ گروپ آف ہنڈرڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔مگر اس وقت اسرائیلی سماج پر جو اجتماعی نسلی دیوانگی طاری ہے اس میں ایسی آوازیں تعداد کے اعتبار سے آٹے میں نمک ہیں۔ اس ضمن میں مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی ابتری پر سنجیدگی سے کام کرنے والی اسرائیلی تنظیم بیت سلام کا تذکرہ ضروری ہے۔بیت سلام نے اپنا نام تورات کی اس آئیت سے لیا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی شباہت پر تخلیق کیا ۔بیت سلام کا مطلب ہے اپنی شباہت۔ یہ تنظیم انیس سو نواسی سے کام کر رہی ہے۔تب تک پہلے فلسطینی انتفادہ کو ایک برس ہوچلا تھا۔بیت سلام اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لیے انسانی حقوق کے فلسطینی ادارے الحق سے بھی اشتراک کرتی ہے۔ دونوں تنظیمیں اپنے ارکان ، عام شہریوں اور انسانی حقوق کی دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے مالی تعاون سے زندہ ہیں۔ بیت سلام کی تشکیل میں اسرائیلی سول سوسائٹی کے کچھ سرکردہ وکلا ، اساتذہ ، ڈاکٹر اور فلسطینیوں کے لیے مساوی حقوق اور ان پر سے فوجی قوانین ہٹانے کے حامی ڈیوڈ زوکر ، حائم ارون اور یوسی سارد سمیت دس لبرل ارکانِ پارلیمان بھی شامل تھے۔بلکہ بیت سلام نام کا انتخاب بھی ایک سابق رکنِ پارلیمان یوسی سارد نے کیا تھا۔ یہ تنظیم سہہ ماہی رپورٹیں تیار کرنے کے علاوہ مقبوضہ علاقوں کے حالات اجاگر کرنے کے لیے وڈیو رپورٹس بھی بناتی ہے۔بیت سلام کو اس کی غیرجانبداری کے سبب بین الاقوامی سطح پر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور اسے متعدد بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ بیت سلام کی ایک شاخ واشنگٹن میں بھی قائم ہے۔اس کی رپورٹیں امریکی حکومت، ارکانِ کانگریس اور میڈیا کو فراہم کی جاتی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق شعبے بھی بیت سلام کی رپورٹنگ سے بطور ماخذ استفادہ کرتے ہیں۔ البتہ بیت سلام نے اسرائیلی فوجی قیادت کو دو ہزار سولہ سے رپورٹیں بھیجنا بند کر دی ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج سرے سے ہی منکر ہے کہ اس کے زیرِ قبضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے۔اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ مقبوضہ علاقوں سے متعلق بیت سلام کی ہر رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ بتاتی ہے۔گزشتہ پینتیس برس میں شائد ایک یا دو مثالیں ایسی ہوں جب بیت سلام کی رپورٹنگ پر شور مچنے کے سبب اسرائیلی فوجی کمان نے اپنے چند ارکان کے خلاف علامتی نوعیت کی کوئی تادیبی کارروائی کی ہو۔ دو ہزار سترہ میں اقوامِ متحدہ کے اقتصادی و سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے معاملے میں ایک اپارتھائیڈ ریاست ہے۔اسرائیل نے ظاہر ہے اس الزام کو حقارت سے مسترد کر دیا۔مگر بیت سلام نے اپنی دو ہزار اکیس کی رپورٹ میں کھل کے کہا کہ اسرائیل اب جمہوری مملکت نہیں رہی بلکہ اپارتھائیڈ نظام پر مبنی ایک نسل پرست ریاست بن گئی ہے۔اس کا مقصد ہر شعبے میں یہودی بالادستی ہے۔ بیت سلام کے علاوہ اسرائیلی سول سوسائٹی کی ایک سرکردہ تنظیم پیس ناو کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ یہ تنظیم دو ریاستی حل اور مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کی انیس سو سڑسٹھ سے پہلے کی اسرائیلی سرحد میں مکمل واپسی اور ہمسایہ ممالک سے امن سمجھوتوں کی وکیل ہے۔اس تنظیم کے دس ہزار ارکان بڑے بڑے مظاہرے منظم کرنے میں ماہر ہیں۔ پیس ناو کا قیام انیس سو اٹھہتر میں مصر کے صدر انور سادات کے دورہِ اسرائیل سے پہلے عمل میں آیا جب ایسا لگ رہا تھا کہ دو طرفہ امن مذاکرات ناکام ہونے والے ہیں۔چنانچہ اسرائیلی فوج کے دو سو اڑتالیس ریزرو فوجیوں اور افسروں نے وزیراعظم مینہم بیگن کے نام ایک کھلے خط میں لکھا کہ ہمسایہ ممالک سے امن سمجھوتے کیے بغیر اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی کے بنا اسرائیل کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔چنانچہ قیامِ امن کی سنجیدگی سے کوشش جاری رکھی جائے۔اس گروپ نے اپنے مطالبات کے حق میں ایک عمومی دستخطی مہم بھی چلائی جس میں لاکھوں اسرائیلی شہریوں نے حصہ لیا۔اس مہم کے دباو میں ہونے والے سمجھوتے کے بعد انور سادات کا تل ابیب کا دورہ ممکن ہو سکا۔ جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر انیس سو بیاسی میں حملہ کیا اور بیروت کے دو فلسطینی کیمپوں ( صابرہ اور شتیلا ) میں اسرائیلی فوج کی نگرانی میں فلانجسٹ ملیشیا نے قتلِ عام کیا تو پیس ناو کے تحت چار لاکھ اسرائیلی شہری تل ابیب کی سڑکوں پر نکل آئے۔وہ اس قتلِ عام کی عدالتی تحقیقات اور وزیرِ دفاع ایریل شیرون کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔چنانچہ عدالتی جانچ کے لیے کاہان کمیشن بنا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی فوج کو قتلِ عام کا بلاواسطہ ذمے دار قرار دیا اور وزیرِ دفاع کی برطرفی کی سفارش کی۔جب بیگن حکومت نے ان سفارشات پر عمل کے سلسلے میں ٹال مٹول دکھائی تو پیس ناو نے کمیشن رپورٹ کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے منظم کیے اور ایریل شیرون کو اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔وہ الگ بات کہ چند برس بعد یہی ایریل شیرون اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن گئے۔ پیس ناو نے فلسطینیوں سے اوسلو سمجھوتے کا خیرمقدم کیا اور اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس کی ٹائم لائن پر من و عن عمل کرے۔مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ پیس ناو مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی آبادکاری کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہے۔اس کے رضاکار ان علاقوں میں مسلسل یہودی تعمیرات کا تفصیلی ڈیٹا جمع کر کے شایع کرتے ہیں۔اس کے ردِعمل میں ان رضاکاروں کو مسلح یہودی آباد کاروں کے حملے بھی جھیلنے پڑتے ہیں۔ پیس ناو کو نجی مالی امداد کے علاوہ امریکا ، برطانیہ ، جرمنی اور ناروے کے انسانی حقوق سے متعلق سرکاری اداروں سے بھی امداد ملتی ہے۔اسرائیلی حکومت نے اس امداد کو محدود کرنے کے لیے کئی قوانین منظور کیے۔ لیکن جب نیتن یاہو حکومت نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لیے بیرونی امداد پر پینتالیس فیصد ٹیکس لگانے کا قانون منظور کرنے کی کوشش کی تو اسرائیل کے اندر اور باہر سے اس کی شدید مخالفت ہوئی۔اسرائیلی اتحادی ممالک نے بھی اس کوشش پر اپنے تحفظات ظاہر کیے۔چنانچہ اس بل کی منظوری فی الحال التوا میں ہے۔ پیس ناو کے علاوہ بھی بہت سے اسرائیلی گروپ ہیں جو دو ریاستی حل اور امن پالیسی کے حامی ہیں مگر ان سب کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں۔البتہ اگلے مضمون میں اسرائیل کے سب سے بڑے مددگار امریکا میں اسرائیل مخالف یہودی اور سول تحریکوں کا ضرور جائزہ لیا جائے گا۔
٭٭٭