شاہ نواز سواتی کا تعلق مانسہرہ سے ہے۔ آپ ایک باوقار شخصیت ، شاعرِ محبت اور صاحبِ حمیت انسان ہیں،میرے حلق احباب میں ہیں۔شگفتہ مزاج اور نکتہ سنج ہیں،خلوص و رواداری کا پیکر اور مروت و شرافت کا اخگر ہیں، شاہ نواز سواتی کی غزل گوئی : تحقیقی و تنقیدی مطالعہ بشریٰ شاہین کا ایم فل کا مقالہ ہے جو ڈاکٹر نذر عابد استاد شعیب اردو ہزارہ یونیورسٹی کی زیرِ نگرانی مکمل ہوا۔ شاہ نواز سواتی صاحب نے اِس مقالہ کی pdf مجھے بھیجی ہے۔ میں نے اِس کا بغور مطالعہ کیا، مقالہ نگار نے ہزارہ کے چند معروف شعرا کا بھی تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ جن میں شعلہ بجنوری، واجد رضوی، نیاز سواتی، صوفی عبد الرشید ، ایوب صابر، سلطان سکون، میگی میرٹھی ، اور اختر رضا سلیمی ہیں جن سے میرے دوستانہ مراسم رہے ہیں۔ اِ ن میں سے چند بقیدِ حیات ہیں اور چند عازمِ ملکِ عدم ہو چکے ہیں، خدا رحمت کند بر عاشقانِ پاک طینت را-
شاہ نواز سواتی کا ایک شعری مجموعہ ہم تو چپ تھے شائع ہو چکا ہے جو بدستِ خود انہوں نے مجھے مرحمت فرمایاتھا،یہ مجموعہ بلاشبہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ آپ عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ انسان بھی ہیں جو سب سے بڑی خوبی ہے۔ آپ درد مند، ملنسار، خوش ذوق، خوش اخلاق، خوش اطوار، خوش گفتار، خوش لباس اور خوش فکر انسان ہیں،عاجزی، انکساری، وضع داری اور غمگساری آپ کا وطیرہ ہے۔ یہ صفات ہر کسی کا نصیب نہیں۔ یہ رتب بلند ملا جس کو مل گیا۔ شاہ نواز سواتی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ آپ کی غزل کا رنگ و آہنگ کلاسیکل ہے جو میر و غالب اور اقبال و فیض کا ہے۔ آپ کی غزل روایت و جدت کا حسین شاہکار ہے۔زبان سادہ و سلیس ہے۔ شعروں میں شعریت ہے۔ شاعری کے علاوہ مصوری ، کالم نگاری اور مضمون نویسی میں بھی یدِ طولی رکھتے ہیں ،
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نبخشد خدائے بخشندہ
آپ آتشِ دروں سے سوزندہ تر اور شعل بروں سے تابندہ تر ہیں۔ ہمہ جہت شخصیت ہیں،غمِ ہجراں سے شاہ نواز، غمِ دوراں سے پیکرِ سوز و ساز، اور غمِ انساں میں سراپا نیاز ہیں۔ اگر کوزے کو دریا میں بند کریں اور بقولِ مرزا غالب دریائے دجلہ کا قطرے میں نظارہ کریں تو شاہ نواز سواتی کی شخصیت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ نخوت و تکبر سے دور، مئے انکساری سے پر سرور، شبِ تار و تیرہ میں چراغِ طور ہیں۔ اگر ہم رومانیت ، اخلاقیات، حقیقت نگاری، سیاسی شعور، حب الوطنی، انسان دوستی، وجدانی کیفیت ، تخیل کی بالیدگی، سماجی دلبستگی، قومی درد، جذبات کی پاکیزگی، احساسات کی نیرنگی، وارداتِ قلبی ، فکری گیرائی ، مزاج کی سنجیدگی ، شیریں کلامی ، وصفِ فروتنی اور احساسِ دردمندی کو یکجا کریں تو شاہ نواز دوستی کا پیکرِ دلنواز بنتا ہے۔
٭٭٭