جس طرح ہر لوک کہانی میں ایک ولن ہوتا ہے پاکستان کی سیاست میں ہر دور میں ایک نہ ایک ولن ضرور ہوتا ہے۔ کافی وقت سے پنجاب کی سیاست میں بے اصولی، بے وفائی، مکروفریب اور لالچ کا نمونہ بھی ایک ”کیدو” ہے۔ اس شخص کا نام”پرویزالٰہی” ہے۔ موقعہ پر کسی سے وفا نہیں کی، حد یہ ہے کہ اپنے خاندان کے بڑے اور بزرگ چودھری شجاعت حسین جس نے پرویزالٰہی کو سیاست میں اپنا چھوٹا بھائی اپنا بیٹا سمجھ کر لایا اسے اس حد تک پہنچایا کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب ایک مرتبہ نہیں دو تین مرتبہ یہ مزہ چکھایا انکی کمر میں خنجر اتارنے سے بھی نہیں ہچکچایا۔ یہ چودھری شجاعت کی دور اندیشی اور وضع داری بھی جس نے اسٹیبلشمنٹ سمیت کئی سیاستدانوں کا انکا(چودھری شجاعت) دلدادہ بنایا اور انہوں نے بڑی محنتوں اور منتوں سے اس 10یا12نمائندگان کی جماعت کو اس معراج پر پہنچایا حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو انکی ایک آواز پر حکومت سے باہر آجائیں ،وفاداریاں بدل ڈالیں، نہ کوئی نظریہ ،نہ اصول فقطہ نظریہ ضرورت کے مرید ہوں۔ ضیاء الحق کے دور میں نوازشریف سے آملے کیونکہ وہاں نوازشریف کی بات چلتی تھی انکی دال نہیں گلتی تھی۔ پھر جب نوازشریف پر برا وقت آیا تو یہ جنرل مشرف کے چرنوں سے لپٹ گئے پوری طرح سے یقین دلایا کہ ”اس تہاڈے نال آں” مشرف کے وقت میں گجرات کے چودھریوں کا ڈنکا بجتا تھا۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ پرویزالٰہی کا تعلق نوری نتھ کے قبیلے سے ہے، یہ نتھ ہیں بدقسمتی چودھری ظہورالٰہی نے پرویزالہٰی سے اپنی بیٹی بیاہ دی اسی وقت سے چودھریوں کی بدبختی کا آغاز ہوگیا، ایک وقت آیا کہ مونس الٰہی نے اپنے بڑے ماموں چودھری شجاعت کوAbsolutely Notکہہ کر عمران خان سے سیاسی قرابت داری ڈال دی۔ آج بھی مونس الٰہی ہی پنجاب چلا رہا ہے جس تیزی تراری سے عمران خان کا ساتھ دیا تھا، ایسی تیزی اب ان کو ”ٹاٹا بائے بائے” کہہ رہے ہیں۔ اس گمرانے کی دوستی تو سب سیاستدانوں سے ہی ہے لیکن اصل دوستی ان کو اپنے ذاتی مفاد اور اس دولت سے ہے۔ جو انہوں نے جنرل مشرف کی حکومت میں لوٹ سے ہے جو انہوں نے جنرل مشرف کی حکومت میں لوٹ مار کرکے بنائی کیونکہ ان پر ہاتھ اسٹیبلشمنٹ کا رہا ہے ،ان پر کبھی کوئی مقدمہ ثابت ہونے نہیں دیا گیا۔ ہر دور میں کھا پی کر ڈکار بھی نہیں ماری، چودھری پراجیکٹ ایک ماڈل تھا جسے اسلئے بنایا گیا تھا کہ جو سیاستدان ہمارے ساتھ ہوگا، اسے احتساب کا الف بھی نہیں لگ پائے گا۔اسلئے اردگرد دیکھیں جنہوں نے خصوصاً جن سیاستدانوں نے گیٹ نمبر چار کی حاضری دی اور اسی گیٹ سے جڑے رہے ،وہ کبھی بھی احتساب کے نرغے میں نہیں آئے ،کچھ نے گڑ بڑ کی تو جھٹکا دیا گیا لیکن جب انہوں نے اعتراف گناہ کیا اور توبہ کی کہ کبھی گیٹ نمبر چار نہیں چھوڑیں گے انہوں نے کئی ”لال حویلیاں”ہڑپ کرلیں کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اس ملک میں احتساب تو صرف اس کا منطقی انجام کو پہنچایا جاتا ہے جس کے پاس مہنگے وکیل کی فیس نہیں ہوتی جو بڑی بڑی فیس دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ جیل نہیں جاتا نہ ہی وکیل کرتے ہیں وہ تو عدالت براہ راست پہنچ کر مک مکا کر لیتے ہیں۔ اسی طرح جن پر طاقتور لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے وہ بھی بچے رہتے ہیں واپس آتے ہیں پنجاب کے کیڈو کی طرف تو اب ان باپ بیٹے کو جنرل باجوہ کی یاد ستا رہی ہے جب چچا عمران جنرل باجوہ کو گندے خطابات سے نواز رہا تھا تو انہیں جنرل باجوہ یاد نہیں آیا اب جب پراجیکٹ عمران خان کو وائینڈاپ کیا جارہا ہے اب انہوں نے سیانا پن کرکے جنرل باجوہ کی تعریفیں کرنے میں اپنی فلاح تلاش کی ہے۔ اب بابا باجوہ اسلئے ان کا محسن ہے کیونکہ جنرل باجوہ باوجود ریٹائرمنٹ کے ایک ادارے سے تعلق رکھتا تھا وہ ادارہ آج بھی طاقتور ہے موثر ہے۔ عمران خان جب جیل گیا تو اور تو اور چودھری فواد بھی اس سے ملنے نہیں جائیگا۔ ماسواء اس کہ چودھری فواد کو ”C” سی کلاس میں رکھیں اور وہ عمران خان سے”A” کلاس میں کھانا کھانے جائے اب نئے آرمی چیف سے پاکستانی عوام کی توقع ہے کہ وہ کرپشن کے میناروں کے خلاف مفصل تحقیقات کروائیں گے۔ خاص طور پر چودھری پرویزالٰہی اور مونس الٰہی نے جو بے انداز اثاثے بنوائے ہیں اس پر ایک جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے سینیٹر جج جن پر کوئی بدعنوانی کے الزام نہیں لگے ہیں تاکہ آئندہ کوئی سیاستدان یہ نہ سمجھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں جو بھی بدعنوانی ہوگی اسکی پکڑ نہیں ہوئی۔ کاش اگر یہ ہو رہ ہو تو کم ازکم آئندہ آنے والے”کیڈو” محطاط ہونگے۔
٭٭٭٭