کملا کا جانا، ٹرمپ کا آنا کتنا فائدہ مند

0
5

کملا کا جانا، ٹرمپ
کا آنا کتنا فائدہ مند

امریکہ میں مسلمانوں اور کمیونٹی کی کثیر تعداد کمیلا ہیرس کے جانے اور ٹرمپ کے آنے کو خوش آئند قرار دے رہی ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے ، کمیلا ہیرس تارک وطن خاتون تھیں جوکہ تارکین کے مسائل سے باخوبی آگاہ تھیں جبکہ ٹرمپ ایک خود پسند اور من مرضی کرنے والے آدمی ہیں ، میرا نہیں خیال ٹرمپ کا آنا مسلم کمیونٹی کے لیے فائدے کی بات ہے ، حالانکہ اس الیکشن میں مسلم اور عرب کمیونٹی نے خلاف توقع ٹرمپ کی حمایت کی ہے جس پر ری پبلیکنز بھی حیران ہیں جبکہ مسلم امیدوارو ں کی بڑی تعداد عوامی حمایت کی محتاج ہو کر ناکامی سے دوچار ہوئی ، اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ بھر میں مسلم کمیونٹی کا ایک پلیٹ فارم متعارف کروایا جائے جس کے زیر نگرانی مسلم امیدواروں کو سپورٹ کر کے اوپر لایا جا سکے ، اپیک نے مسلم کمیونٹی کو اچھا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے لیکن اس کو مزید وسیع ہونا چاہئے، اس مقصد میں ”پاکستان نیوز” کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیںجوکہ مسلم کمیونٹی کو ایک مقصد اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے ۔موجودہ الیکشن میں ٹرمپ کے ووٹرز کی بات کی جائے تو آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ٹرمپ کے 50فیصد ووٹرز ایسے ہیں جوکہ سالانہ 50ہزار ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں ، جبکہ کمالا ہیرس کو سپورٹ کرنے والے امریکیوں کی بڑی تعداد ایسی تھی جوکہ 1لاکھ ڈالر سالانہ کما رہی ہے ، الیکشن کے دن کی طرف بڑھتے ہوئے، ووٹرز نے مسلسل مہنگائی اور معیشت کو سرفہرست مسئلہ قرار دیا۔ CNN کی ایگزٹ پولنگ کے مطابق، 31فیصد ووٹروں میں سے جنہوں نے معیشت کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ درج کیا، 79 فیصد نے صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ووٹروں میں سے جو سالانہ50ہزار ڈالر سے کم کماتے ہیں، تقریباً 50 فیصدنے مسٹر ٹرمپ کو ووٹ دیا، جبکہ 48 فیصد نے محترمہ ہیرس کو ووٹ دیا تاہم، محترمہ ہیرس نے ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ، 51 سے 46 فیصد تک کمانے والے ووٹرز کے ساتھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ CNN ایگزٹ پول کے مطابق محترمہ ہیرس نے 2020 میں صدر بائیڈن کی کارکردگی کے مقابلے میں کالج کی ڈگری نہ رکھنے والے ووٹروں میں 16 پوائنٹس کی کمی تھی۔ مسٹر ٹرمپ نے 2020 اور 2024 دونوں الیکشنوں میں کالج کی ڈگری کے بغیر سفید فام مردوں اور خواتین کے ساتھ بھی اپنا فائدہ برقرار رکھا،لاکھوں محنتی، متوسط طبقے کے خاندانوں نے کملا کی مہم کے لیے عطیہ دیایہاں تک کہ ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ میں سے کچھ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ محنت کش طبقے کے ووٹروں کو اپیل کرنے میں ناکامی محترمہ ہیرس کی مہم کی موت کا سبب تھی۔یہ کوئی بڑی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ ایک ڈیموکریٹک پارٹی جس نے محنت کش طبقے کے لوگوں کو چھوڑ دیا ہے، اسے یہ معلوم ہو گا کہ محنت کش طبقے نے انھیں چھوڑ دیا ہے، ہیرس نے اگست میں گروسری اسٹورز اور فوڈ سپلائی کرنے والوں کی طرف سے رہائش، ادویات اور خوراک کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے “قیمتوں میں اضافے” پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی۔ منصوبے کے تحت، محترمہ ہیرس نے فیڈرل ٹریڈ کمیشن کو ان کارپوریشنوں پر “سخت جرمانے” لگانے کا اختیار دیا ہوگا جن کی قیمتیں مقرر ہیں لیکن اس نے کبھی بھی اس منصوبے کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ اس سے قیمتیں کیسے کم ہوں گی۔ کچھ ماہرین اقتصادیات نے الزام لگایا کہ اس کا الٹا اثر پڑے گا، کیونکہ یہ مصنوعی طور پر منافع کے مارجن کو کم کرکے مسابقت کو کم کرے گا۔
کملا ہیرس کی مخالفت کرنا اور ٹرمپ کا جیتنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اسرائیل غزہ جنگ کے بعد امریکہ بھر میں جو مظاہرے ہوئے وہ بائیڈن انتظامیہ کی خاموشی اور اس کے اسرائیل کا ساتھ اور امداد دینے پر ہوئے۔’تاہم اس سب کے باوجود (اس ضمن میں) ٹرمپ سے بھی زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہونی چاہییں۔ ماضی میں وہ کْھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کر دیا تھا جو کہ اس وقت بین الاقوامی طور پر ایک متنازع مگر اسرائیل میں مقبول اقدام قرار دیا گیا تھا۔ٹرمپ کی انتخاب میں جیت کو وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو نے ‘عظیم ترین کامیابی’ قرار دیا ہے جبکہ اسرائیلی صدر نے ٹرمپ کو ‘امن کا چیمپئن’ اور اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے انھیں ‘اسرائیل کا حقیقی دوست’ قرار دیا ہے۔ان کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ بطور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی عسکری اور سفارتی امداد جاری رکھیں گے اور شاید اس میں اضافہ بھی کر دیںلیکن اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ کی متوقع پالیسی پر ایک رائے اور بھی ہے، وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ جنگوں کو روکیں گے۔گزشتہ ہفتے امریکہ کے نائب صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے سے کچھ گھنٹے قبل کملا ہیرس نے ان تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے امریکی حکومت میں دوسرے بڑے عہدے تک پہنچنے میں ان کے سفر میں مدد کی۔ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں انھوں نے کہا ‘میرے یہاں تک پہنچنے میں جس عورت کا کردار سب سے زیادہ ہے وہ میری والدہ شیامالہ گوپالن ہیں،جب وہ 19 برس کی عمر میں انڈیا سے یہاں آئیں تو انھوں نے اس لمحے کا تصور نہیں کیا ہو گا، لیکن انھیں ایک ایسے امریکہ پر یقین ضرور تھا جہاں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ کی تاریخ میں کملا ہیرس ملک کی نائب صدر بننے والی پہلی خاتون کے ساتھ ساتھ اس عہدے پر پہنچنے والی پہلی سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی امریکی بھی ہیںلیکن ان کی کامیابیوں کی کہانی اس وقت تک نہیں لکھی جا سکتی جب تک اس سفر کا ذکر نہ ہو جو ان کی والدہ نے 1958 میں اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے انڈیا سے امریکہ تک کیا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here