حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا کہ میں نے اکہتر کتابوں میں یہ پڑھا ہے کہ جب یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے اس وقت سے لے کر قیامت تک کے تمام انسانوں کی عقلوں کا اگر سرور کائناتۖ کی عقل مقدس سے موازانہ کیا جائے تو تمام انسانوں کی عقلوں کو آپ کی عقل شریف سے وہی نسبت ہوگی جو ایک ریت کے ذرے کے تمام دنیا کے ریگستانوں سے نسبت ہے۔ یعنی تمام بنی نوع کی عقلیں محض ایک ریت کے ذرے کے مساوی اور حضورۖ کی عقل شریف تمام دنیا کے ریگستانوں کے برابر ہے۔ واضح رہے کہ اس حدیث پاک کو ابونعیم محدث نے محدث ابن عسا کرنے بھی روایت کیا ہے، اس وقت مجھے ایک بڑا ہی اہم واقعہ یاد آرہا ہے جسے نذر قارئین کر رہا ہوں۔ ایک مرتبہ بوعلی سینا کے خادم نے جناب کے سامنے عرض کیا کہ حضور! بڑے دنوں سے ایک سوال پردہ ذہن سے بار بار ٹکرا رہا ہے مگر دریافت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اگر اجازت ہو تو وہ سوال پیش کرکے ذہنی خلجان کو دور کر لوں۔ بوعلی سینا نے کہا بلاجھجک وہ سوال کرلو اس میں اجازت کی کیا ضرورت ہے۔ خادم نے عرض کیا جناب! بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بے پایاں فیض وکرم سے آپ علم وفن کی عظیم ترین منزل پر فائز ہیں۔ بڑے بڑے دانشور آپ سے مختلف مسائل میں رجوع کرتے ہیں گویا آپ کی حیثیت منبع علم وفن کی ہے۔ لوگ خندہ روی کے ساتھ آپ کے اقوال کے اتباع میں سربہ خم ہو جاتے ہیں اور بصد افتخار آپ کو اپنا رہنما ومقتدا سمجھتے ہیں لیکن میں یہ دیکھتا ہوں کہ دنیا آپ کی اقتدا واتباع کر رہی ہے اور آپ محمدۖ کی پیروی میں شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں آخر اس کی معقول وجہ کیا ہے؟ بوعلی سینا نے کہا بندہ خدا! تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے مگر اس کے جواب کے لیے تھوڑا سا انتظار کرو وقت آنے پر تمہیں اس کا شافی جواب مل جائے گا۔ وقت گزرتا گیا اور خادم کو حصول جواب کی فکر مضطراب کرتی رہی مگر ایک دن! سردی کا موسم تھا اور رات انتہائی سرد۔ وقت فجر ہوا تو بوعلی سینا نے خادم سے کہا کہ میرے لیے پانی لے آئو تاکہ میں وضو کرکے نماز فجر ادا کر لوں۔ سخت سردی کی بنیاد پر خادم کو تساہلی نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ اس کا بستر چھوڑنے کو قطعی جی نہیں چاہتا تھا اور اس پر مستزادیہ کہ وہ گرم بستر کا لطف بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ بوعلی سینا نے خادم کو پھر آواز دی تو خادم بڑے منکرانہ انداز میں اور لجاجت بھرے لہجے میں کہا کہ حضور! ناقابل برداشت سردی ہے اٹھنے کو طبیعت نہیں چاہتی براہ کرم گستاخی معاف آپ خود ہی پانی لے کر وضو کرلیں نوازش ہوگی۔ بوعلی سینا بغیر کسی تعرض کے اٹھا پانی لیا وضو کرکے نماز فجر ادا کرلی۔خادم نے تو اپنا عذر پیش کردیا مگر اس کا ضمیر اے عدم اتباع پر ملامت کرنے لگا۔ جلدی سے اٹھا اور بوعلی سینا کے سامنے دست بستہ معذرت پیش کرنے لگا۔
٭٭٭