اسرائیل 20نکاتی امن معاہدے پر متفق

0
43

واشنگٹن (پاکستان نیوز)اسرائیلی وزیرا عظم نیتن یاہو نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ 20نکاتی امن منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے جس کے بعد معاہدہ حماس کی قیادت تک پہنچا دیا گیا جن کے پاس فیصلہ کرنے کیلئے تین سے چار دن کا وقت ہے ، صدر ٹرمپ نے معاہدے سے انکار کی صورت میں حماس کو شدید نتائج سے متعلق متنبہ کر دیا ہے ، امن معاہدے کے 20نکات کے مطابق غزہ دہشت گردی سے پاک علاقہ ہو گا اور یہ اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہیں ہو گا، غزہ کو اس کے شہریوں کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جو پہلے ہی بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں، اگر دونوں فریق، اسرائیل اور حماس، اس تجویز پر راضی ہو جاتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی فورسز یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ لائن پر واپس چلی جائیں گی۔ اس دوران، تمام فوجی کارروائیاں، بشمول فضائی اور توپخانے سے بمباری روک دی جائے گی، اور مکمل انخلا کی شرائط کے مکمل ہونے تک ہر طرح کی عسکری کارروائیاں روک دی جائیں گی۔ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ یرغمالیوں اور مر جانے والے یرغمالیوں کی لاشوں کو واپس کر دیا جائے گا۔ تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل جیلوں میں موجود 250 فلسطینی قیدیوں کے علاوہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد حراست میں لیے گئے غزہ کے 1700 قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں تمام خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ہر اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کے بدلے اسرائیل غزہ کے 15 مقتولین کی باقیات واپس کرے گا۔ تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بعد، حماس کے وہ ارکان جو پرامن بقائے باہمی کا وعدہ کریں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے انھیں عام معافی دی جائے گی۔ حماس کے وہ ارکان جو غزہ سے جانا چاہیں انھیں ان ممالک تک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا جو انھیں وصول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس معاہدے کی منظوری کے بعد فوری طور پر غزہ کے لیے مکمل امداد بھیجی جائے گی۔ امداد کی مقدار کم از کم 19 جنوری 2025 میں ہونے والے انسانی امداد کے معاہدے کے مطابق ہو گی، جس میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی (پانی، بجلی، سیوریج)، ہسپتالوں اور بیکریوں کی بحالی، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری مشینری کا غزہ داخلہ شامل ہے۔ غزہ کی پٹی میں امداد کا داخلہ اور تقسیم دونوں فریقوں، اسرائیل اور حماس، کی مداخلت کے بغیر اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں، اور ہلال احمر کے علاوہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ہو گی۔ اس کے علاوہ کسی ایسی تنظیم کو بھی امدادی کارروائیوں کی اجازت نہ ہو گی جو کسی بھی فریق کے ساتھ کسی بھی طرح سے وابستہ ہو۔ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھولنا 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے تحت نافذ کردہ اسی طریقہ کار سے مشروط ہو گا۔ غزہ میں ایک ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی عارضی عبوری حکومت قائم کی جائے گی، جو غزہ میں عوامی خدمات اور بلدیاتی ادارے چلانے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ کمیٹی اہل فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہو گی۔ اس کمیٹی کی نگرانی ایک نیا بین الاقوامی عبوری ادارہ ‘بورڈ آف پیس’ کرے گا، جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس بورڈ میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے جبکہ دیگر اراکین اور سربراہان مملکت کا اعلان بھی کیا جائے گا۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے فریم ورک کا تعین کرے گا اور اس وقت تک فنڈز کو سنبھالے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا مؤثر طریقے سے کنٹرول سنبھال نہیں لیتی اور اپنا اصلاحاتی پروگرام مکمل نہیں کر لیتی جیسا کہ صدر ٹرمپ کے 2020 کے امن منصوبے اور سعودی فرانسیسی منصوبے جیسی مختلف تجاویز میں بیان کیا گیا ہے۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹرمپ کے اقتصادی ترقی کا منصوبہ ایسے ماہرین کا پینل تیار کرے گا جنھوں نے مشرق وسطیٰ میں ترقی پذیر جدید شہروں میں سے کچھ کو بنانے مدد دی تھی۔ ایک خصوصی اقتصادی زون کو ترجیحی ٹیرف اور رسائی کی شرحوں کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔ کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اور جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہوں گے اور وہاں واپس آنے کے لیے بھی۔ ہم لوگوں کو وہاں رہنے کی ترغیب دیں گے اور انھیں ایک بہتر غزہ کی تعمیر کا موقع فراہم کریں گے۔ حماس اور دیگر دھڑے اس بات پر اتفاق کریں گے کہ غزہ کی حکمرانی میں براہ راست، بالواسطہ یا کسی بھی صورت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ تمام فوجی، دہشت گردی اور جارحانہ انفراسٹرکچر بشمول سرنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری کی سہولیات کو تباہ کر دیا جائے گا اور دوبارہ تعمیر نہیں کیا جائے گا۔ آزاد ماہرین کی نگرانی میں غزہ کو غیر فوجی زون بنانے کا عمل ہو گا، جس میں ہتھیاروں کو مستقل طور پر ناقابلِ استعمال بنایا جائے گا اور جس کی تصدیق ایک متفقہ عمل کے ذریعے کی جائے گی۔ اس عمل کو بین الاقوامی طور پر مالی اعانت سے چلنے والے باء بیک اور دوبارہ انضمام کے پروگرام کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ نیا غزہ ایک خوشحال معیشت کی تعمیر اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ خطے میں موجود شراکت دار اس بات کی ضمانت فراہم کریں گے کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کریں گے اور یہ کہ نیو غزہ اس کے پڑوسیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ امریکہ اپنے عرب اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں فوری طور پر تعیناتی کے لیے ایک عارضی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) تیار کی جائے گی۔ آئی ایس ایف غزہ میں جانچ شدہ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور مدد فراہم کرے گا، اور اس معاملے میں اْردن اور مصر سے مشاورت کرے گا جنھیں اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔ یہ فورس طویل مدتی داخلی سلامتی کا حل ہو گی۔ آئی ایس ایف اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں محفوظ بنانے میں مدد دے گی۔ اس کام میں نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورسز بھی شامل ہو گی۔ کسی بھی طرح کے جنگی سازوسامان کو غزہ میں داخل ہونے سے روکنا اور غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے سامان کی تیز رفتار اور محفوظ منتقلی کو آسان بنانا بہت ضروری ہے۔ فریقین کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا جائے گا۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا اس کا اسرائیل کے ساتھ الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف کنٹرول سنبھالتی جائے گی، اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) پہلے سے طے شدہ سنگ میلوں اور ٹائم فریموں کی بنیاد پر وہاں سے انخلا کرتی جائے گی جس پر اسرائیلی فوج، آئی ایس ایف، ضامنوں اور امریکہ پر پہلے سے اتفاق ہو گا۔ اس مقصد یہ یقینی بنانا ہوا ہو گا کہ اسرائیل، مصر یا اس کے شہریوں کے لیے اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عملی طور پر، غزہ کی عبوری اتھارٹی کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت آئی ڈی ایف آہستہ آہستہ غزہ کا کنٹرول آئی ایس ایف کے حوالے کر دے گی۔ تاہم وہ اپنی وہ حفاظتی مقصد سے اس وقت تک اپنی موجودگی برقرار رکھے گی جب تک یہ یقینی نہیں بنا لیا جاتا کہ غزہ کے کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے خطرے کا سبب نہیں بنے گا۔ اگر حماس اس تجویز کو مسترد کرتا ہے یا اس کی منظوری میں تاخیر کرتا ہے تو اس اثنا میں اسرائیلی فوج دہشت گردی سے پاک علاقے آئِ ایس ایف کے حوالے کر دے گی اور وہاں یہ منصوبہ شروع کر دیا جائے گا۔ ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل شروع کیا جائے گا تاکہ امن سے حاصل ہونے والے فوائد پر زور دے کر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت اور بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ جب غزہ کی دوبارہ ترقی اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اصلاحاتی پروگرام پر عمل کے ساتھ ہی بالآخر فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے لیے حالات سازگار ہو سکیں گے جسے ہم فلسطینی عوام کی خواہش کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے مذاکرات کروائے گا۔دوسری جانب دنیائے اسلام کے آٹھ اسلامی ملکوں اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کیلئے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی مخلصانہ کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے صدر ٹرمپ امن کی راہ تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔وزارت خارجہ نے دوحہ سے جاری مشترکہ بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے خطے میں امن کے قیام کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ وزرائے خارجہ نے صدر ٹرمپ کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا جس میں انہوں نے جنگ کے خاتمے، غزہ کی تعمیرِ نو، فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کی روک تھام اور جامع امن کے فروغ کی تجویز دی ہے، وزرا ئے خارجہ نے صدرٹرمپ کے اس اعلان کا بھی خیرمقدم کیا کہ وہ مغربی کنارے کے الحاق کی اجازت نہیں دیں گے۔وزرائے خارجہ نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ وہ معاہدے کو حتمی شکل دینے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے امریکا اور تمام فریقین کے ساتھ مثبت اور تعمیری طور پر بات چیت کے لیے تیار ہیں تاکہ خطے کے عوام کے لیے امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔دریں اثناء چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گواؤجیاکون نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔روسی ایوان صدرکریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے بھی غزہ میں جاری المیہ کو ختم کرانے کیلئے صدرٹرمپ کی طرف سے کی جانے والی امن کوششوں کو سراہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ روس چاہتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے امن منصوبے پر عمل ہوتاکہ مشرق وسطیٰ میں جاری بحران کو پرامن انداز میں حل کیا جاسکے۔جرمنی کے وزیرخارجہ جان ویڈفل نے صدرٹرمپ کے امن منصوبے کو خوفناک جنگ کے خاتمے کا ایک نادرموقع قراردیا ہے۔انہوں نے حماس پر زوردیا ہے کہ وہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دے ۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایکس پر جاری بیان میں توقع ظاہر کی ہے کہ اسرائیل اس منصوبے پرپورے عزم کے ساتھ عمل کرے گا،حماس کے پاس بھی اب کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرے ۔برطانوی وزیراعظم کیئرسٹارمر کاکہنا ہے کہ ہم سب اس بات سے متفق ہیں کہ امریکی منصوبے پر عملدرآمدکیا جائے ،حماس کو بھی اس پر متفق ہوجانا چاہیے تاکہ وہاں جاری دکھوں کا خاتمہ ہوسکے،حماس کو ہتھیارڈال کر تمام قیدیوں کو رہا کردینا چاہیے۔سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرنے بھی اس منصوبے کو دلیرانہ اورمدبرانہ اقدام قراردیا ہے۔اٹلی کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ جنگ کے خاتمے کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے ۔سپین کے وزیراعظم پیڈروسانچیزنے بھی ایکس پر جاری بیان میں امن منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ دوریاستی حل ہی دیرپا امن کی ضمانت دے سکتا ہے۔نیدرلینڈز اور آسٹریلیانے بھی امن منصوبے کی حمایت کی ہے۔آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ ،یرغمالیوں کی رہائی ،غزہ کے عوام تک انسانی امداد رسائی جسے اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے ہی پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے ۔قازقستان ،نیوزی لینڈ نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔یورپی کونسل کی صدرانتونیو کوسٹا نے ایکس پر اپنے بیان میں تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اس موقع پر اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں۔

۔ واضح رہے کہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم فلسطین سے اسرائیل کے مکمل انخلا کیلئے پرعزم ہیں، پاکستان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہے اور غزہ میں استحکام لانے کیلئے انٹرنیشنل فوج میں شامل ہونے کو تیار ہے، انڈونیشیا نے 20 ہزار فوجی فلسطین بھیجنے کی پیشکش کی ہے،پاکستان کی طرف سے فلسطین فوج بھیجنے کا فیصلہ قیادت کرے گی۔منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ صدرٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت حاصل ہوگی۔اس منصوبے کے تحت غزہ میں عالمی امن فورس تعینات ہوگی،اس انٹرنیشنل فوج کو غزہ کے اندر تعینات نہیں کیا جائیگا بلکہ یہ فوج فلسطینی اتھارٹی اور اس کی پولیس کی ضرورت پڑنے پر معاونت کریگی۔اس پلان کا مقصد امن، سکیورٹی اور استحکام ہے،پاکستان نے مجوزہ معاہدے کو من و عن تسلیم نہیں کیا ،اس میں ترامیم کی ہیں،ہماری ترامیم اگر شامل نہیں ہیں تو شامل ہونی چاہیئں۔انہوں نے کہا فلسطین کا دورہ ریاستی حل پاکستان کا دیرینہ موقف ہے۔وزیراعظم نے جنرل اسمبلی اجلاس میں بھی اسے دہرایا ہے،سارک ممالک بھی اس پالیسی میں ہمارے ساتھ ہیں۔ وزیرخارجہ نے کہا اس معاہدے کے پیچھے بہت کام ہوا ہے ،پلان پر پہنچنے کیلئے کئی مشاورتی ادوار ہوئے ہیں،فلسطین کے حق میں جن ممالک سے اللہ نے کام لیا ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔یہ اللہ کا ہم پر بڑا کرم ہے۔ 20 نکاتی پلان پر 8 ممالک کی کمٹمنٹ ہے، آٹھ ممالک کے سربراہان نے دل کیساتھ پلان کو کامیاب بنایا۔فلسطین اتھارٹی اس پلان کا خیر مقدم کر رہی ہے۔8 مسلم ممالک اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر نے واضح کیا ہے کہ ویسٹ بینک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔یہاں کچھ لوگ اس معاہدے پر بھی اپنی سیاست کے لیے تنقید کررہے ہیں ،خدا کا خوف کریں، کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہاں خون بہتا رہے، بچے اور خواتین مرتے رہیں؟ ان لوگوں کا مقصد صرف سیاست ہے۔فلسطین کے لوگ اس پلان کو قبول کر رہے ہیں،جوعناصر سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ کسی اور موضوع پر سیاست کر لیں فلسطین پر نہ کریں۔ اسحاق ڈار نے کہا وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی، وہاں آسٹریلیا، کویت، عرب ممالک، اسلامی ممالک اور امریکا کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں،مسئلہ فلسطین کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا، غزہ میں جاری ظلم پر بات کی، غزہ جنگ بندی،امداد کی فراہمی پر بات چیت کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بھی چین میں سائیڈ لائن ملاقات ہوئی ہے ۔ان سائیڈ لائن ملاقاتوں میں غزہ کے حوالے کھل کے بات کی۔18 کے قریب سائیڈ لائن پر ملاقاتوں میں پاکستان کی بھر پور نمائندگی کی گئی۔ ہمارے ایجنڈا میں غزہ سرفہرست تھا۔ 8 مسلم ممالک کے لیڈران غزہ کی آواز اٹھانے کے لئے ایک پیچ پر تھے۔یو این اجلاس کے علاوہ صدر ٹرمپ سے ملاقات میں غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔غزہ میں اب یہ نوبت آچکی ہے کہ پہلے بمباری سے شہید کئے جا رہے تھے اور اب بھوک سے وہاں شہیدوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ سے ملاقات میں فلسطینیوں کے قتل عام اور مغربی کنارے کو اسرائیل کی طرف سے ہڑپ کرنے کی کوشش کو روکنا ہمارا ایجنڈا تھا ۔مسلم ممالک نے اپنی تجاویز صدر ٹرمپ کی ٹیم کو فراہم کیں،غزہ سیز فائر کی تجاویز کو ذمہ داری سے خفیہ رکھا،تجاویز خفیہ رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی اس اچھی کوشش کوسبوتاژ نہ کر سکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here