موجودہ شمارہ عید الفطر کے مقدس و پُرسرت دن کے ناطے عید ایڈیشن کے طور پر آپ کے زیر مطالعہ ہے، میری اور پاکستان نیوز شکاگو کی جانب سے قارئین و مسلم اُمہ کو دلی مبارکباد اور نیک تمنائیں و دعائیں۔ اللہ تعالیٰ ماہ رمضان المبارک کے بابرکت ایک ایک لمحے کی عبادتوں، ریاضتوں اور تزکیہ نفس کو قبولیت عطاء فرمائے۔ آمین۔ ماہ مبارک رمضان، درحقیقت مسلم اُمہ کیلئے وہ فرض عین ہے جو محض عبادات ہی نہیں، اتحاد، ضبط و تحمل اور محروم و نادار طبقات کی اعانت و مدد سے عبارت ہے۔ افسوس کا امر یہ ہے کہ رمضان المبارک اور اس کے بعد ماہ تشکر عید الفطر کے چاند کے حوالے سے چاند کی روئیت پر ہی متفق ہونا ہمارے مذہبی علماء کیلئے ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ ہم نے پاکستان میں ہوش سنبھالا تو چاند نظر آنے کے ایشو پر اختلاف کے نتیجے میں دو عیدیں ہوتے ہوئے دیکھیں، امریکہ آنے کے بعد اگرچہ شروع میں ایک عید ہی متفقہ طورپر منائی جاتی رہی اور رویت ہلال کے حوالے سے کوئی نزاعی صورتحال درپیش نہ ہوتی تھی لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہاں بھی عید ہی نہیں رویت رمضان کے حوالے سے کبھی تکنیکی بنیادوں اور کبھی فقہی بنیادوں پر اختلافی صورتحال امت کیلئے کنفیوژن کا سبب بنتی ہے۔ اس بار بھی صورتحال یہی ہوئی، شکاگو ہلال کمیٹی اور بیشتر مساجد سے رات دیر تک چاند ہونے کی تصدیق نہ ہو سکی جبکہ مضافات میں چاند ہونے کا اعلان کئے جانے کے بعد تراویح و سحری کا اہتمام و آغاز کر دیا گیا۔ یوں پہلا روزہ رکھنے والے دو دنوں میں تقسیم ہو گئے۔ ہم جس دن یہ سطور لکھ رہے ہیں، آدھے لوگوں کا یہ 27 واں روزہ جبکہ آدھے لوگ 26 ویں روزے کے حامل ہیں۔ اس سبب سے نہ صرف طاق راتوں کا حساب منقسم ہوا ہے بلکہ عید کے چاند کا معاملہ بھی کنفیوژن اور تقسیم کا شکار ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تمام تر تکنیکی ترقی پذیری اور گلوبل لنک کے باوجود رمضان اور عید کے چاند کیلئے اختلافی صورتحال کیوں پیدا ہوتی ہے، باقی دس مہینوں کیلئے تو ہم نے تکنیکی یا فقہی بنیادوں پر کبھی اختلاف یا تقسیم نہ دیکھی نہ سنی۔
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُمت مسلمہ جس کیلئے ہدایت ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ رکھو اور آپس میں تفقہ نہ کرو اس ہدایت سے دور ہو گئی ہے اور محض چاند یا فقہی تقسیم ہی نہیں ہر دنیاوی و موجود اتی معاملے میں بھی منقسم ہے اور اس کمزوری کے سبب دنیا کی دیگر قومیتوں، قوتوں اور مملکتوں کی ریشہ دوانیوں، سازشوں کا آسان ہدف ہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو فلسطین سے کشمیر تک مسلم ممالک اور قومیتیں دشمنوں اور طاقتور قومیتوں کے مظالم و جبر و استبداد، معاشی دبائو کے سبب معتوب ہیں ہی، خود آپس میں بھی محاذ آرائی و تقسیم میں مصروف ہیں یا مقتدر عالمی قوتوں کے ایجنڈے پر دست و گریباں نظر آتی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ دنیا کے 49 ممالک کی آبادی مسلم اکثریت ہے جو کُل آبادی کا تقریباً 24 فیصد سے زائد (تقریباً دو ارب) بنتا ہے۔ ان کے پاس دنیاوی اور قدرتی وسائل بھی بہتات سے ہیں۔ پاکستان جوہری توانائی کا حامل جبکہ سعودی عرب و دیگر عربی و خلیجی ممالک مالی و مادی وسائل کے حساب سے یورپ، امریکہ و دیگر براعظموں کے ممالک سے بہت آگے ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر تقریباً اسلامی ملکوں یا مقتدروں کی کوئی آواز ہے نہ عمل، اسرائیل کے غزہ میں جنگی اقدامات اور 35 ہزار سے زائد فلسطینیوں بشمول خواتین و بچوں کی شہادتوں، غزہ اور مغربی کنارے کی تباہیوں کا سلسلہ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں و ممالک کی قراردادوں، عالمی عدالت انصاف کے احکامات کے باوجود رکنے کا نام نہیں لیتا کہ اسرائیل کی ہر طرح کی حمایت و معاونت کا ٹھیکہ امریکہ بہادر نے لیا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، اسرائیل کی اسلحہ و دیگر طریقوں سے سرپرستی کرنا امریکی صدر جوبائیڈن کی مسلم دشمنی کا مظہر ہے۔ کشمیر کا قبضہ، بھارتی حکومت اور افواج کے مظالم 75 برسوں سے کشمیریوں کا قتل، ریاست اور آئینی حیثیت کی تبدیلی کیساتھ پاکستان کیخلاف دہشتگردی، سازشیں اور عالمی سطح پر پاکستان مخالف حرکات و اقدامات تیز تر خصوصاً ایسے وقت پر بالخصوص کئے جاتے ہیں جب بھارت میں انتخاب کا وقت ہوتا ہے۔ احمد آباد کے مسلم قتل عام کا قصائی خصوصاً ایسے وقت میں پاکستان مخالف دھونس دھمکیوں بلکہ حملے سے بھی باز نہیں آتا۔ 2019ء میں بھارت کی ذلت، پسپائی، ابھی نندن کی گرفتاری کو بھول کر بھارتی وزیراعظم اور وزیر دفاع اب پھر پاکستان پر حملہ آور ہونے کے دعوے کر رہے ہیں وجہ یہ کہ دو ہفتے بعد لوک سبھا کے الیکشن ہیں اور بھارتی جنتا کی اپنی حمایت کیلئے پاکستان دشمنی بی جے پی کا واحد ہتھیار ہے۔ اُدھر ٹریبیون میں پاکستان میں بھارتی دہشتگردانہ واقعات نیز کینیڈا، امریکہ یورپین ممالک سکھ رہنمائوں کے قتل و سازشوں کا بھانڈا پھوٹنے اور عالمی منظر نامے پر بھارتی دہشتگردانہ ایجنڈے کے انکشاف پر جن سنگھیوں کی ذلت و رسوائی مودی کیلئے باعث پریشانی ہے۔
بھارتی دھمکیوں اور اعلان کا پاک وزارت خارجہ اور متعلقہ حلقوں نے تو سخت جواب دیدیا ہے لیکن دکھ اس بات پر ہے کہ اس ایشو پر بھی سیاست کی جا رہی ہے، یہاں پر بحیثیت قوم ہم متحد نہیں بلکہ منقسم ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح چاند کے معاملے پر، سیاسی معاملات پر یا ذاتی مفادات و ایشوز پر لڑتے بھڑتے اور منقسم رہتے ہیں۔