ایک وقت تھا سینما واحد تفریح تھا اور یہ جنون1970تک عروج پر رہا۔ لیکن مغرب امریکہ، برطانیہ، اسپین، میکسیکو، فرانس، جرمنی، جاپان،روس اور چین سینما کی دوڑ میں آگے پیچھے بھاگتا رہا اور آج بھی اپنے اپنے ماحول، تاریخ اور میوزک کے سہارے قائم ہے یہ جنون امریکہ کی جستجو سینما میں تفریح فراہم کرنے کے انداز سے بدلتی رہی، یعنی وہ سپر میں، آئرن میں، بیٹ میں اور کارٹونوں پر فلمیں بنا کر، سرمایہ کاری اور اس کے بنانے میں لگ گیا اور سوشل اور تاریخی فلموں سے دور ہوتا گیا۔ ایک وقت آیا کہ غیر زبان کی فلموں کو ایوارڈز سے نوازہ گیا۔ لیکن ہر ملک نے فلموں کی تاریخ لکھی۔ ہم پاکستانی جو60کی دہائی میں اوپر آرہے تھے گر گئے کہ ہم نے اپنے ماحول کی عکاسی نہیں کی اور کھیتوں میں بھنگڑہ لے آئے۔ پنجابی فلموں کا دور چلا تو سلطان راہی اور مصطفی قریشی چھا گئے۔ اور تھوڑا تھوڑا بے حیائی کا رنگ بھی بھراگیا۔ پاکستان کی آبادی جو کم پڑھی لکھی تھی نے پسند کیا۔ لیکن مغرب نے فلموں کے ذریعے عوام کو تاریخ بتائی اور ایمانداری سے بتائی۔ اطالوی فلموں نے معیاری فلمیں دیں۔ بائسیکل تصیف مثال ہے۔ روس نے بھیTHEIFبنا کر ثابت کیا کہ معاشرے کی برائیوں کو کیسے سینما کے پردے پر لانا ہے۔ اطالوی ڈائریکٹر فریلکوز فریلی نے شیکپیر کی رومیو جیولٹ کو سینما کے پردے پر اسی شان وشوکت سے پیش کیا کہ کہانی کااصل اسکرین پلے آنکھوں میں پینٹنگ کی طرح سج گیا۔ دو بالکل نئے اداکاروں کے ساتھ اس نے شیکپیر کے ڈرامے رومیوجیولیٹ کو ایک ایسی شہرہ آفاق فلم بنا دیا کہ اب تک کی بننے والی فلمیں جو اس کہانی سے ماخوز ہیں اور دنیا کے ہر ملک میں جہاں سینما ہے سب سے اعلیٰ فلم یہ ہی ہے۔
جاپان کے اکیرا کو روساوا نے1951میں راشومان اور1954میں سیون سمورائی بنا کر ہالی وڈ کو حیران کردیا کہ وہ جاپان کی نقل کرنے لگے۔ ادھر اسپین کے دو ہدایت کار نے دنیا بھر میں نام روشن کیا۔ پیڈرو الماڈوور اور ونسنٹ ارانڈا نے۔ ٹائی می اپ ٹائی می ڈائون اورAMENTASبنا کر خود کو ہالی وڈ میں منوالیا۔ ادھر میکسیکو بھی پیچھے نہ رہاY tu mama Tambian(اور تیری ماں بھی) خوبصورت فلم بنا کر دوسرے ملکوں میں کاپی کرنے پر مجبور کردیا۔ برازیل کے ہدایت کار والٹرسلیس نے نے ہدایت کاروں کی صف میں۔ فلم سینٹرل اٹیشن اور چی گوارا پر موٹرسائیکل ڈائریز بنا کر نام پیدا کیا۔ اس ہفتے10مارچ کو ہالی وڈ کے سب سے مشہور اور بڑے اکاڈسی ایوارڈ کی تقریب منائی جائے گی۔ پچھلے96سالوں سے اکاڈمی(آسکر ایوارڈز) نے ہالی وڈ اور دوسرے ملکوں میں بننے والی فلموں کو سراہا اور نوازہ ہے۔ صرف اکاڈمی میں نامزدگی کے نتیجے میں وہ فلم لاکھوں ڈالرز کا زیادہ بزنس کر جاتی ہے اور یہ ہالی وڈ کا ہی کمال ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں وہ نت نئے اور پرانے فارمولوں کے ذریعے عوام کو سینما کی طرف کھینچ رہا ہے۔ تاریخ، ادب موجودہ ماحول کےTOPICSپر اچھی اسے اچھی فلمیں بنا رہا ہے۔ پچھلے تین سال COVIDکی زد میں آنے کے بعد ایک بار پھر سے عوام میں دلچسپی پیدا کر رہا ہے۔ ہر چند کہ ہم پاکستانی مذہب کے دھندے اور اس کی شدت میں (اوپری) اتنے بہہ گئے ہیں کہ فلموں(فیچر) کو بھی گناہ کبیرہ سمجھنے لگے ہیں۔ اور بھول جاتے ہیں کہ فلموں کے ذریعے عوام کو تاریخ اور تفریح دی جارہی ہے۔ اور اس سے عوام یاد رکھتے ہیں یہ فنون لطیفہ کی سب سے مضبوط قسم ہے۔ اکاڈمی ایوارڈز کا فیصلہ اکاڈمی کے تقریباً چھ ہزار ممبر کرتے ہیں جن میں ہم ایک اعزازی ممبر ہیں۔ جو فیصلہ میں شامل نہیں۔ اور جو لوگ فیصلہ کرتے ہیں وہ عناد اور تعصب اور اقربا پروری کے بھی شکار ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں جو انگلینڈ کے اداکاروں یا ہدایت کاروں کو نہیں مانتے ان کی تعداد کم ہے لیکن وہ کسی بھی بڑے اداکار کا بیڑا غرق کرسکتے ہیں۔ اور یہ کام1962سے جاری ہے۔ جب فلم لارنس آف عربیا کے اداکار پیٹر اوٹول کی ہیرنے کی طرح شفاف اداکاری کو سراہنے سے انکار کرتے ہوئے اس کے مقابلے میں ٹوکل اے موکنگ برڈ کے اداکار گریگوری پیک کو دے دیا گیا تھا اور یہ سلسلہ جاری رہا کہ نو دفعہ نامزد ہونے کے بعد اور ایک سے ایک بہترین فلم میں اداکاری پر پیٹر اوٹول کو ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ اب سامنے آئی یعنی63سال بعد کہ پیٹر اوٹول حد سے زیادہ شراب نوشی کرتا تھا کہنے والے یہ بھول گئے کہ کنیکٹی کٹ میں پیدا ہونے والی کیتھرائن ہپ برن پیٹر اوٹول سے کہیں زیادہ شراب نوشی کرتی تھی کہ ڈائریکٹر کو شوٹنگ ملتوی کرنا پڑی تھی۔ اور اسے چار بار بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ایک اور کھلی مثال1984میں ریلبز موزارٹ(MOZART) کی زندگ پر مربوط فلمAMADEVSتھی جسے چیک ڈائریکٹر ملوس فارمین نے ڈائریکٹ کیا تھا موزارٹ(AMADEVS) کا کردار ایک نئے اداکار ٹام ہلک نے کھیلا تھا اور ایک ایک منظر میں جان ڈال دی تھی لگتا تھا خود موزارٹ(موسیقار) زندہ ہو کر آگیا ہے یہ فلم بالکل ہٹ کر تھی مگر اسی فلم میں ایک بے جان اداکاری کرنے والے شاہی موسیقار، مرے ابراہم کو بہترین ایوارڈ دے کر ٹام ہلک کو ڈیپریشن میں ڈال دیا تھا کہ وہ فلموں سے دور ہوگئے آج کل وہ کیلی فورنیا میں ہے۔ اسی طرح ایک معمولی فلم، شیکپیران لو میں اس کی ہیروئن گینتھ پیلڑو کو بہترین اداکاری کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اور سب سے بڑا مذاق یہ تھا کہ2018میں برٹش سنگر فریڈی مرکزی پر بننے والی والی فلمBCHAMIAN RHAPSODYمیں سنگر کا کردار ادا کرنے والے بالکل نئے اداکار ریمی ملک کو بہترین اداکاری کا ایوارڈ دے کر چونکا دیا۔ کیا یہ ایوارڈ صرف دانتوں کو باہر نکال کر سنگر کی شکل بنانے پر تھا۔ یا یہ کہ اس کےGAYہونے پر تھا۔فلم میں بیک گرائونڈ میوزک نہ ہونے کے برابر تھی لیکن برائن سنگر جو اغلام بازی میں پکڑے گئے تھے کو نوازنا تھا۔ دو فلموں سے مشہور ہوئے تھےX-MANاورUSUAL SUSPECT، اکاڈمی ایوارڈز کی غلطیوں یا ناتجربہ کار فلموں کی تاریخ سے ناواقف ممبران کی غفلت کا خمیازہ اچھی فلموں اور اداکاروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں اس اتوار کو اس تقریب میں شامل فلموں اور اداکاروں پر پچھلے سال کی ریلیز فلموں اور اداکاروں اور دوسرے شعبوں سے جڑے فنکاروں کو اس سے پہلے جنوری سے اب تک ایوارڈز دیئے جاچکے ہیں جن میں گولڈن گلوب، اسکرین گلڈ، اورBAFTA(برٹش ایوارڈز) شامل ہیں اور اب ہم پیشن گوئی کرتے چلیں کہ پچھلے سال کی فلموں میں سے10بہترین فلمیں شامل ہیں۔ جن میںOPPENIHEIMER,THE HOLD OVER,BARBIEاورKILLERS OF THE FLOWER MOONمقابلہ سخت ہے ہمارا خیال ہے کہ بہترین فلم کا ایوارڈOPPENHEIMERکو چلے گا۔ اور اسی لحاظ سے بہترین اداکاری میں اسکے ہیرو۔ سیلن مرضی، دی ہولڈ اوور کے پال گیامتی، اور کلر آف دی فلاور مون کے لینارڈ، ڈی کیپریو میں مقابلہ سخت ہے، ہر چند کہBAFTAاور دوسرے ایوارڈ والوں نے سیلن مرفی کو بہترین اداکاری کا ایوارڈ دیا ہے لیکنTHE HOLDOVER کے مشہور ڈائریکٹر، الیکزنیڈر پائن اسکول کے موضوع پر فلم بنانے میں ماہر ترین میں انکی شروع کی فلمTHE ELECTIONدیکھیں، تو ہم کہہ سکتے ہیں اسکے اداکار پال گیامتی کو بہترین اداکاری کا ایوارڈ ملے گا جب کہ ڈی کیپر یو کی اداکاری بھی کم وزنی نہیں ہے لیکن انہیں مل چکا ہے اور جوان ہیں۔ اسی طرح ہدایت کاری میں ان ہی فلموں سے ہمOPPENHEIMER کے ہدایت کار کرسٹوفر تولن کا چنائو کرینگے۔ انکی سب سے پہلے فلمMOMENTOتھی جس کا چربہ نو ملکوں میں بنایا گیا تھا انڈیا میں عامر خان نے اور جنل سے بھی زیادہ خوبصورتی سےGHAJNIبنائی تھی اس سے پہلے تامل میں بھی بنی تھی۔
اب آتے ہیں بہترین اداکارہ پر تو مقابلہ۔ للی گلیڈاسٹون(کلرز آف غلاورسون) ایما اسٹون اور انیت بیننگ میں ہے۔ ممبران کو معلوم ہے انیت بیننگ کافی عمر کی ہوچکی ہیں لہذا ایوارڈان کو مل سکتا ہے مگر ہم کہینگے یہ ایوارڈ للی گلیڈ اسٹون کو ملے گا جو خود بھی ریڈ انڈین قبائل سے ہیں۔ گولڈن گلو اب انہیں بہترین اداکاری کا ایوارڈ دے چکا ہے۔ اب ہم بہترین معاون اداکار کی بات کرتے ہیں۔ ہر چند کہ مشہور اداکار رابرٹ ڈی نیرو اور مارک رفیلو مقابلے میں ہیں لیکن رابرٹ ڈائونی جونیر جنہوں نے اپنی1992کی فلم میں اداکار چارلی چپلن کا کردار کیا تھا فلم کا نام بھی چارلی تھی۔ لیکن ممبران نے ذاتی عناد کی بنا انکا چنائو نہیں کیا خیال رہے۔ لیکن اکاڈمی اس سال انہیں ایوارڈ دے گی فلم OPPENHEIMERمیں اداکاری پر اور سب جانتے ہیں کہ وہ حقدار ہیں۔
اور اب آیئے معاون اداکارہ کے رول میں کس کا چنائو ہوگا۔ جس جیوڈی فاسٹر بھی شامل ہیں۔ اور ایملی بلنٹ بھی شامل ہیں لیکن فلمTHE HOLDONER میں خوبصورت اداکاری پر اسی نئی اور سیاہ فام امریکنDAVINE JOYکو ملنے کی پیشن گئی کرتے ہیں۔ بہترین میوزک فلمOPPENHEIMERRکے لئے ہے ،فوٹو گرافی میں ہماری پشن گوئی دی کلر آف فلاور مون کے لئے ہے۔ لیکن ممبران کا جھکائوOPPENHEIMERکے لئے ہے اور یہ5سے زیادہ ایوارڈ لے جائیگی۔ اگلے ہفتے ایوارڈ جیتنے والی فلموں اور اداکاروں پر کالم ہوگا۔
٭٭٭٭٭