جمہوری اسلامی ایران میں آج پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں، اگست کی بات ہے جب ایران کے اس وقت کے منتخب وزیرِ اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹا دیا گیا تھا۔ امریکہ نے اپنا یہ کارنامہ پچاس سال کی طویل مدت بعد تسلیم تو کرلیا لیکن ایرانی قوم ربع صدی تک ڈکٹیٹر شپ کی تنگ گلیوں میں بھٹکتی رہی۔ ایک طویل خونی جدوجہد کے بعد اسے ایک خاص ماڈل کی جمہوریت تو نصیب ہوگئی لیکن آیت اللہ امام خمینی کے اس انقلاب کے پینتالیس سال بعد بھی وہ امریکی سپر پاور کے سامنے اقوامِ عالم کی مجالس میں تنہائی کا شکار ہے۔
وزیرِ اعظم محمد مصدق کی جمہوری حکومت کے خاتمہ کیلئے، امریکی سی آئی اے نے اس وقت کے ایرانی جرنیلوں کو استعمال کر کے کیا تھا۔ اسی لئے کہ انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی اور دیگر علما نے آئین میں ترامیم کرکے، اپنے جمہوری نظام کو سپریم لیڈر اور شوریٰ نگہبان کے ذریعے پروٹیکشن دی۔ سازشی عناصر سے نبٹنے کے ساتھ انہیں ایران عراق جیسی طویل جنگ سے بھی گزرنا پڑا، کیونکہ بقول انکے، مقابلہ شیطانِ بزرگ سے تھا۔ چند سال پہلے جب سی آئی اے نے خود اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وزیرِ اعظم محمد مصدق کی معزولی ایک غیر جمہوری قدم تھا تو ایرانی بھائیوں کو مرزا غالب بہت یاد آئے کہ!
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ہمارے ایرانی بھائی ہر چار سال بعد اپنی مشاورتی اسمبلی کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔ ارکان پر مشتمل یہ اسمبلی انتظامی معاملات کی نگہبانی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر آٹھ سال بعد عوام ارکان پر مشتمل ماہرین کی اسمبلی منتخب کرتے ہیں جس کا اصل مقصد سپریم لیڈر کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ آج کے انتخابات اس لئے بھی اہم ہیں کیونکہ مشاورتی اسمبلی کے ساتھ ساتھ ماہرین کی اسمبلی بھی منتخب ہو رہی ہے۔موجودہ سپریم لیڈر اپنی بیماریوں کی وجہ سے ایسی حالت میں ہیں کہ اس مرتبہ منتخب ہونے والے ماہرین کو نئے سپریم لیڈر کا بھی انتخاب کرنا پڑے گا۔ ایران کے پاور اسٹرکچر میں چونکہ سپریم لیڈر کو بے انتہا اہمیت حاصل ہے، اس لئے بین الاقوامی طور پر ایران کا آج کا الیکشن خاصی اہمیت کا حا مل ہے۔امریکہ سمیت، مغرب کی تمام طاقتوں کیلئے ایران ایک بہت اہم ملک ہے۔ ان کے خیال میں ایران کو ان کے ورلڈ آرڈر کے سامنے جس قدر سر نگوں ہونا چاہئے، اتنا نہیں ہوتا۔ فلسطین، شام، عراق اور یمن کے ممالک میں وہ خواہ خواہ ٹانگ اڑا کر، ان کے کئے ہوئے شکار کو بدمزہ کردیتا ہے۔ پچھلے پینتالیس سالوں کے دوران کئی کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود، ملائوں کی حکومت پوری طرح گھٹنے نہیں ٹیک رہی۔ ان انتخابات میں بھی مغرب اپنی کامیابی کا معیار یہ سمجھ رہا ہے کہ لوگ ووٹ دینے نہ جائیں۔ جمہوریت کے نام نہاد ٹھیکیدار جب اس قسم کے مقف کا اظہار کرتے ہیں تو سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ دوسری طرف، یہ ہمارے ایرانی بھائی بھی خوب ہیں۔ معاشی پابندیوں اور پینتالیس سالہ ملا راج سہنے کے باوجود بھی ہر پارلیمانی الیکشن میں چالیس فیصد سے زائد تعداد میں ووٹ دے دیتے ہیں۔ جبکہ امریکہ میں جس سال صرف کانگریس کا الیکشن ہو، ٹرن آٹ بتیس تینتیس فی صد سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔اسی کی دہائی میں، شکاگو میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے کچھ ایرانی طلبا دوست بنے تو پتہ چلا کہ مشترکہ بارڈر کے علاوہ پاکستان اور ایران کے درمیان ایک اور قدر بھی مشترک ہے اور وہ ہے اقبالیات۔ جس شخصیت کو بصد عزت و احترام، ہم علامہ محمد اقبال کے نامِ نامی سے جانتے تھے، اسے ایرانی بھائی اقبال لاہوری کہہ کر بلاتے ہیں۔ پہلے تو مجھے ان کی یہ بے تکلفی بالکل پسند نہ آئی لیکن پھر خوشی ہوئی کہ وہ ہمارے سیالکوٹ کے اقبال کو بھلے لاہوری کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن جانتے تو ہیں۔ میں نے تو انہیں کہا کہ اگر آپ لوگوں نے ہمارے حضرتِ علامہ اقبال کو اقبال لاہوری ہی کہنا ہے تو پھر زیادہ بہتر ہے کہ اقبال لہوری کہیں تاکہ لہجہ تو ٹھیک رہے۔
امریکہ بہادر کی فرمائش پر جرنیلوں کی مدد سے پاکستان میں لائی گئی غیر فطری سیاسی تبدیلی کو بھی اب دو سال ہونے کو آئے ہیں۔ امید تو یہی ہے اس انٹرنیٹ کے دور میں، پاکستانی قوم کو ایرانی بھائیوں کی طرح پچیس سال تک راندہ درگاہ نہیں ہونا پڑے گا۔ خمینی کے انقلاب کو بھی اس وقت کی نئی ٹیکنالوجی، آڈیو کیسیٹ کے ذریعے زیادہ تیزی حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت سوشل میڈیا تقریبا وہی کام کر رہا ہے۔ بہرحال یہ مقابلہ بھی ایک سپر پاور اور اس کے ورلڈ آرڈر سے ہے۔ دیکھیں کتنا وقت لگتا ہے۔اپنے ایرانی بھائیوں کیلئے تو اقبال لاہوری کے یہ اشعار بہت ہمت بندھانے والے ہیں۔
پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
٭٭٭