کرم میں تشدد کے تازہ واقعات میں مزید اکیس افراد مارے جا چکے ہیں۔مسلح گروہ لوگوں کے گھروں کو آگ لگاتے رہے۔سکیورٹی فورسز کی حفاظتی چوکیوں کو نذر آتش کیا اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ۔قبائلی ضلع کرم میں دو روز میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد 64 ہو گئی ہے۔ ضلع کرم میں خون کی ہولی کے بعد ، قبائلی پٹی شدید جھڑپوں کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ تشدد کی تازہ لہر کے پیش نظر، خیبر پختونخواہ حکومت حرکت میں آئی اور متحارب فریقوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک وفد کو علاقے میں بھیجا گیا ہے۔علی زئی، باغان، بالش خیل، کھرل کلی اور مقبل سمیت مختلف قبائل کے درمیان ہونے والی فائرنگ میں مخالفین خودکار اور بھاری ہتھیاروں سے ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔حکام نے دور دراز پہاڑی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے اور موبائل فون سروس معطل کر دی گئی ہے۔ علاقے میں کشیدگی کے باعث کاروبار اور سکول بند ہیں۔سینکڑوں خاندان عدم تحفظ کے باعث علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔21 نومبر 2024 کو خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم میں مسلح افراد نے مسافروں کو لے جانے والی گاڑیوں کے ایک بڑے قافلے پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 50 افراد جاں بحقاور 30 دیگر زخمی ہوئے۔ یہ حملہ حالیہ برسوں میں تشدد کے مہلک ترین واقعات میں سے ایک تھا۔ حکام نے اس حملے کو “دہشت گردانہ کارروائی” قرار دیا ہے۔ اس نوع کی ایک کارروائی نے چند مہینوںقبل متعدد جانیں لے لی تھیں۔اس وقت بھی حکومت نے تاخیر سے اپنا کردار ادا کیا ۔یہ تاخیر ایک بار پھر بڑی واضح اور افسوسناک صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔ کرم میں شدت پسندی اور تشدد مقامی تنازعات و غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے برسوں سے موجود ہے۔علاقے کا ریونیو ریکارڈ نہیں جس کی وجہ اراضی کی ملکیت پر قبائل ایک دوسرے سے بھڑ جاتے ہیں۔یہ جھگڑا اس وقت ایک جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جب متنازع اراضی سے قیمتی معدنیات دریافت ہو جائیں۔دو گروہوں کے درمیان ایسا ہی ایک جھگڑا اب تک سینکڑوں جانیں لے چکا ہے۔چند ماہ قبل اراضی پر تنازع میں پنتالیس افراد کی جانیں گئیں۔یہ لڑائی کئی دن تک جاری رہی تھی۔تازہ واقعات میںابتدائی اطلاعات کے مطابق 300 سے زائد دکانیں اور 100 سے زیادہ مکانات جل چکے ہیں۔کئی مقامات پر مقامی لوگوں نے “حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ کی”۔ ضلع کرم کا نام دریائے کرم سے پڑا ہے۔ضلع کرم کی آبادی 619,553 نفوس پر مشتمل ہے۔ اسے دوتحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، یہ افغانستان سے ملحق ڈیورنڈ لائن پر پوری قبائلی پٹی میں سب سے خوبصورت وادی ہے۔ یہ پاکستان کے شمال مغرب میں اور خاص طور پر پہلے وسطی فاٹا میں واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال اور مغرب میں افغانستان، جنوب مشرق میں کوہاٹ، جنوب میں شمالی وزیرستان اور مشرق میں خیبر اور اورکزئی کے اضلاع سے ملتی ہے۔ ضلع کا کل رقبہ 3,380 مربع کلومیٹر ہے۔اس کے پاس پاور سیکٹر (چھوٹے ڈیم جن میں ملانا ڈیم، زیران ڈیم، کوٹ راگہ ڈیم ملی خیل)، معدنیات کے شعبے (صابن کا پتھر 3.2 ملین ٹن، کوئلہ 2.0 ملین ٹن اور ماربل، میگنی سائٹ اور لوہے کے ذخائر) ہائیڈرو کاربن (تیل اور خام تیل کے ذخائر ہیں ۔ تیراہ بلاک میں گیس کے ذخائر ہیں ۔یہاں سر سبز جنگلات ہیں۔ یہ شعبے کرم کی معاشی حیثیت میں اضافہ کرتے ہیں۔یہاں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں ۔ کرم ایجنسی میں، پاراچنار، کرمان، زائران، شلوزان، کھرلاچی قلعہ، چھپری، تریمنگل اور کوہ سفید جیسے دلکش سیاحتی مقامات ہیں۔ شائد اس علاقے کی یہی خوبیاں و صفات اس کے امن کی دشمن بن رہی ہیں۔افغانستان سے قربت نے اسے دہشت گردوں اور ان کے متشدد نظریات کے پھیلاو کے لئے آسان ہدف بنا رکھا ہے۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ حکومت ان کی نگرانی میں کرم مسئلے کے پرامن اور پائیدار حل کے لیے تمام فریقوں کو مشاورت میںشامل کر رہی ہے۔وزیراعلی کی ہدایت پر کرم پہنچنے والے حکومتی وفد نے ضلع کرم کا دورہ کیا اور انہیں اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کی ہے۔صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم، وزیراعلی کے مشیر بیرسٹر محمد علی سیف، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری، آئی جی پولیس اختر حیات خان اور دیگر پر مشتمل وفد نے پاراچنار میں متحارب فریقوں میں کے عمائدین سے ملاقات کی ہے اور ان سے قیام امن کے متعلق تجاویز طلب کی ہیں تاکہ تنازعات کا پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔ملک کے بڑے شہروں سے نو گو ایریا ختم کرنے پر خاص توجہ دی جاتی رہی ہے۔یہ نو گو ایریا سابق جہادیوں،شدت پسندوں ، منشیات کے کاروبار سے وابستہ آبادیوں اور تشدد پسند گروہوں نے قائم کر رکھے تھے۔ کراچی شہر میں اس نوع کے بہت سے علاقے تھے۔سکیورٹی اداروں نے ان کے خلاف کامیاب آپریشن کئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی میں خوف کا خاتمہ ہوا، کاروبار بحال ہوا اور عام آدمی کا اپنے اداروں پر اعتماد بڑھا۔کرم اپنے محل وقوع ۔قدرتی وسائل اور توانائی کی صلاحیت کے لحاظ سے اہم علاقہ ہے۔ایسے علاقے میں تشدد اور قتل و غارت ملک کے عمومی امن وامان کو تباہ کر سکتے ہیں۔سکیورٹی اداروں کی مسلسل قربانیوں کے باوجودپاکستانی سماج حکومتوں کی غفلت کی وجہ سے بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔لازم ہے کہ صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاق بھی اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے تاکہ بد امنی اور اس سے پیدا تشویش کا خاتمہ ہو سکے۔
٭٭٭