خلیل الرحمان بھی چلے گئے!!!

0
19
رمضان رانا
رمضان رانا

ویسے تو امریکہ میں پاکستانی امریکن آباد کاروں کی لاتعداد ہمیں چھوڑ کر جاچکے ہیں جس میں وکلاء برداری میں چودھری صادق، انعام عباسی، منور اقبال کانجن، تنویر شاہ، ارشد اقبال چیمہ، میاں اشرف کے علاوہ کمیونٹی کے سرکردہ لوگ، ڈاکٹر شفیع بیزار، ڈاکٹر جان، واحد بخش بھٹی صحافی، چودھری ارشد صحافی، چودھری اصغر اکائوٹنٹ، مرزا بیگ اکائوٹنٹ، خواجہ احسان، رانا مجاہد، میاں زاہد، سرفراز چیمہ، سرفراز امین قابل ذکر ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں مگر اردو اخبار کے اردو ٹائمز کے مالک پبلشر، ایڈیٹر صحافی خلیل الرحمان کی گزشتہ ہفتے وفات کا سن کر یقین نہ آیا کہ جن کو ہمیشہ صحت مند اور چلتا پھرتا دیکھا گیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کمیونٹی کے ان چند لوگوں میں شامل تھے جو ہمیشہ پاکستانی امریکن کمیونٹی کے لئے متحرک نظر آئے تھے۔ جنہوں نے اردو ٹائمز شائع کرکے اردو زبان کو بقا بخشی جس میں راقم الحروف کو اپنے مضمون لکھنے کا شرف حاصل رہا ہے جو ہر قسم کی پابندیوں سے بالاتر ہو کر شائع ہوا۔ خلیل الرحمان مرحوم کی بیگم بھی بڑی پڑھی لکھی خاتون ہیں جو اخبار کے شائع کرنے میں پیش پیش رہی ہیں۔ جو اردو تحریروں کی نوک جھوک ٹھیک کرتی ہیں جس سے امریکہ میں اردو زبان کو سہارا ملا جو آج ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ اردو میں ہم کلام کا موقع ملتا ہے لہٰذا دونوں میاں بیوی نے اردو اخبار شائع کرتے ہیں بڑی محنت اور ہر قسم کی جدوجہد کی ہے۔ خلیل مرحوم کو جب بھی دیکھا گیا تو وہ اخبار کے شائع کرنے میں مصروف نظر آیا جس میں یہ کہا جائے کہ اگر نارتھ امریکہ میں اردو زبان کو اجنیبت سے بچایا تو مبالغہ نہ ہوگا جنہوں نے اردو زبان کی بقا کے لئے اخبار کے علاوہ لاتعداد اردو کانفرنسیں اور مشاعرے منعقد کئے جس میں ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے شرکت کی ۔ پریڈوں کا انعقاد کیا جس کی وجہ سے اردو زبان کو بچانے کے لئے دوسرے بڑے اخبار”پاکستان نیوز” کو کریڈٹ جاتا ہے جو پورے شمال امریکہ میں شائع ہو رہا ہے جن کے پبلشر مجیب لودھی کا کہنا ہے کہ میں نے اخبار” اردو اخبارات” کو دیکھ کر شائع کیا جو واقعی ایک چیلنج ثابت ہوا کہ جنہوں نے بھی خلیل مرحوم کی طرح دن رات محنت کرکے اخبار نکال رہے ہیں خاص طور پر کرونا وبا اور موجودہ جدید ٹیکنالوجی کے موقع پر اخبارات شائع کرنا کتنا مشکل ہوچکا ہے مگر پاکستان نیوز اور اردو ٹائمز دونوں باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں جن کی بدولت آج نارتھ امریکہ میں اردو زبان زندہ ہے جس میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ اردو زبان میں ہم کلام ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال خلیل الرحمان بھی ہمیں چھوڑ گئے جن کا نماز جنازہ جمعہ کے روز پڑھایا گیا جس کے بعد واشنگٹن ہائٹس کے قبرستان میں دفنایا گیا جس میں ان کے رشتے داروں ، دوستوں اور ہمدردوں نے بھرپور شرکت کی۔ شرکاء نے ان کے حق میں خصوصی دعائیں کیں جس کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ انسان جب کوئی دوسروں کے کام کرتا ہے تو وہ چلا جاتا ہے مگر ان کے کام کاج بطور یادداشت باقی رہتے ہیں لہٰذا جب تک امریکہ میں اردو زبان کا چرچا رہے گا تب تک خلیل الرحمان مرحوم کا نام یاد رہے گا ،اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے (آمین)۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here