معراج محمد خان: میری نظر میں!!!

0
12
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

جناب قیوم نظامی صاحب کا مضمون جو معراج محمد خان: انقلابی لیڈر کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ہے اس میں آپ نے معراج محمد خان کی سیاسی جدو جہد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ سوشلسٹ تھے، شعلہ بیان مقرر اور انقلابی تھے۔ آپ نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی میں شامل ہوئے اور انہوں نے مزاحمتی اور اصولی سیاست کے لیے زندگی وقف کر دی تھی۔ آپ کی یہ باتیں بجا ہیں ۔ معراج محمد خان بلاشبہ تیغِ بے نیام تھے مگر وہ اپنی جذباتی طبع کی وجہ سے زمینی حقائق کی روشنی میں سیاسی برنامہ مرتب کرنے میں ناکام رہے۔لمیری رائے میں معراج محمد خان ایک مخلص اور انقلابی انسان ضرور تھے لیکن وہ پاکستان کے زمینی اور معروضی حالات سے نابلد تھے۔ آپ نے لکھا ہے 1970 کے انتخابات سے پہلے ہالہ سندھ میں پی پی پی کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ معراج محمد خان نے انتخابات میں شرکت کی سخت مخالفت کی اور پرچی نہیں برچھی کا نعرہ لگا دیاجبکہ مسٹر بھٹو نے ایک سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی جو پرچی کے ذریعے حکومت میں آنے کا برنامہ رکھتی تھی۔ معراج محمد خان پرچی کی بجائے برچھی کا نعرہ لگا رہے تھے جو کمیونسٹ پارٹی کا نعرہ ہوتا ہے۔ وہ روسی اور چینی طرز کا سوشلسٹ انقلاب لانے کے خواہاں تھے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ روسی اور چینی انقلاب پرچی سے نہیں بلکہ طویل جد و جہد کے بعد برچھی سے آئے تھے ۔ سوشلسٹ خونی انقلاب کے لیے Ballet کی نہیں Ballot کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھٹو مرحوم ایک جمہوری سیاسی پارٹی کے بانی تھے اور وہ ملک میں ہر شعبہ میں بتدریج اصلاحات لانا چاہتے تھے۔ جمہوریت میں فیصلہ پرچی سے جبکہ سوشل ازم میں فیصلہ برچھی سے ہوتا ہے۔معراج محمد خان سوشلسٹ نہیں بلکہ کمیونسٹ/ مارکسسٹ تھے جو صرف خونیں انقلاب پر یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ مسٹر بھٹو نے جلس عام میں بارہا کہا کہ وہ مسلم سوشلسٹ ہیں یعنی انقلابی مسلمان ہیں۔ بھٹو مرحوم کمیونسٹ یا مارکسسٹ نہیں تھے۔ 1971 میں پاکستان دو لخت ہو چکا تھا۔ جنرل یحی خان صدر رہنا چاہتا تھا جبکہ مجیب الرحمان اپنے ان چھ نکات پر ڈٹا ہوا تھا جو بھارتی انٹیلی جنس را نے مرتب کیے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہہ دیا تھا کہ مجیب الرحمان کا مشن بنگلہ دیش کی تشکیل ہے۔چھ نکات پر سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ مجیب الرحمان کے انہیں چھ نکات کی وجہ سے ایوب خان نے اسے اگرتلہ سازش کیس میں قید میں رکھا ہوا تھا۔ ایک دن میں فیلڈ مارشل ایوب خان سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر گیا تو باتوں باتوں میں انہوں نے نہایت افسوس کے ساتھ کہا کہ سیاست دانوں نے مجھ پر دبا ڈال کر مجیب الرحمان کو جیل سے رہا کروایا۔ ایوب خان نے کہا میرے ساتھ ملاقات میں سب بڑے سیاسی رہنما شامل ہوئے لیکن بھٹو شامل نہیں ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ بھٹو شیخ مجیب کی رہائی پر ناخوش تھا۔ وہ شیخ مجیب کو غدار سمجھتا تھا۔ ایوب خان نے دورانِ گفتگو یہ بھی کہا کہ بھٹو محبِ وطن ہے۔
یہ 2002 کی بات ہے کہ معراج محمد خان میری رہائش گاہ پر طفیل سبزواری صاحب کے ساتھ تشریف لائے اور عمران خان کا پیغام دیا کہ وہ اگلے دن مجھ سے ملنے میرے گھر آنا چاہتے ہیں اور مجھے تحریکِ انصاف میں شمولیت کی بنفسِ نفیس دعوت دینا چاہتے ہیں۔ اس وقت معراج محمد خان تحریکِ انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل تھے۔میں نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات اسلام آباد میں ان کے دفتر میں آپ کے ساتھ کروں گا کیونکہ میرا ان کی جماعت میں فی الحال شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ملاقات کے بعد حتمی فیصلہ کروں گا۔ میری رہائش گاہ پر دورانِ گفتگو معراج محمد خان نے کہا کہ بھٹو نے ان پر تشدد کروایا اور وہ اپنے انقلابی منشور سے منحرف ہو گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قید کے دوران ان پر تشدد سے ان کی آنکھ کو نقصان پہنچا۔ میں نے نہایت ادب سے ان سے کہا کہ مسٹر بھٹو نے اپنے منشور سے کوئی بے وفائی نہیں کی۔ ہر شب زندگی میں جتنی اصلاحات بھٹو مرحوم نے کی ہیں وہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی نہ کر سکا۔ بھٹو کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ بھٹو ایک مسلم انقلابی تھے اور جموریت پر یقین رکھتے تھے جبکہ آپ پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب لانے کے خواہاں تھے جو ناممکنات میں سے ہے۔ یہ ملک قاہدِ اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات پر بنا ہے نہ کہ کارل مارکس اور لینن کے نظریات پر۔ بھٹو کا تو آپ سے اختلاف ہونا ہی تھا۔
دوسرے دن میری طے شدہ ملاقات عمران خان کے اسلام آباد ان کے پارٹی دفتر میں ہوئی جو دو گھنٹے جاری رہی جس میں معراج محمد خان اور طفیل سبزواری بھی شریک تھے۔ عمران خان نے مجھے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ۔ پارٹی منشور اور سیاسی حالات پر بھر پور گفتگو ہوئی۔ میں نے پارٹی نے پارٹی میں بوجوہ شرکت نہ کی۔2003 میں معراج محمد خان نے تحریکِ انصاف سے استعفیٰ دے دیا اور طفیل سبزواری بھی مستعفی ہو گئے۔میری اس تحریر کا مقصد کسی کی تعریف یا تحقیر ہرگز نہیں ۔ رہبری کے معیار کے لئے علامہ اقبال کے یہ دو شعر یاد آ رہے ہیں
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here