اب تو پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ اسرائیل نسل پرست اور اپارتھائیڈ ریاست ہے۔اگرچہ انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ کے انٹرنیشنل کرائم کورٹ نے گرفتاری وارنٹ بھی نکال دیے ہیں مگر یہ مجرم قیادت اور اس کے اتحادی ممالک بضد ہیں کہ یہ سب الزامات یہود دشمنی کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ کی طرح اس مضمون میں مزید اسرائیلی ریاستی قوانین کی تفصیل پڑھ کے آپ خود اندازہ لگائیے کہ نسل پرست اپارتھائیڈ ریاست دراصل ہوتی کیا ہے؟ اسرائیلی ریاستی ضابطے کے آرٹیکل اٹھارہ اے کے تحت صرف یہودی مذہبی تہواروں پر عام تعطیل ہو گی۔ واحد غیر مذہبی چھٹی چودہ مئی (یومِ آزادی) ہے۔ دو ہزار گیارہ میں بدنامِ زمانہ نقبہ قانون کے تحت وزارتِ خزانہ کو اختیار دیا گیا کہ وہ ایسے کسی بھی ثقافتی ، تعلیمی یا آرٹ ادارے کی سرکاری مالی امداد ختم کر سکتی ہے جو چودہ مئی کو یومِ آزادی کے بجائے بطور یومِ نقبہ یا یومِ سوگ منائے یا اسرائیل کو ایک یہودی جمہوری ریاست ماننے سے انکار کرے۔ تعلیم ایکٹ مجریہ انیس سو تریپن کے تحت جدید اسکولوں اور مذہبی مدارس میں ایسا نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے جس سے صرف یہودی ثقافت اور صیہونی نظریہ اجاگر ہو۔سن دو ہزار میں اس ایکٹ میں یہ اضافہ کیا گیا کہ سرکاری سطح کی تعلیم میں اسرائیل کے عرب اور دیگر شہریوں کی ثقافت، روایات اور تاریخ کے پہلووں کو بھی تسلیم کیا جائے۔ یہ شق دیکھنے میں تو بہت اچھی لگتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قومی نصاب میں یہودی ثقافت اور صیہونی نظریے کی طرح دیگر ثقافتوں اور ان کی تاریخ بھی لازما شامل کی جائے۔چنانچہ اب تک یہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سن دو ہزار سے پہلے تک اسرائیل کی دو سرکاری زبانیں تھی۔ عبرانی اور عربی۔مگر دوسرے انتفادہ (دوہزار تا پانچ ) کے ردِعمل میں عربی سے سرکاری درجہ واپس لے لیا گیا۔اس تبدیلی کے بعد درس گاہوں میں غیر یہودی سماج کی تاریح و ثقافت کیسے اجاگر ہو ؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ ویسے بھی اسرائیل کے سرکاری اسکولوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں نقبہ کا ذکر سرے سے غائب ہے(نقبہ انیس سو اڑتالیس تا باون کے اس دور کو کہتے ہیں جب ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو جبرا اپنا گھر اور زمین چھڑوانے کے لیے کئی جگہ قتلِ عام کر کے دہشت زدہ کیا گیا)
بظاہر اسرائیل کی عرب اقلیت کو سرکاری فنڈنگ سے کمیونٹی اسکول کھولنے کی اجازت تو ہے مگر عرب اسکولوں میں اگر نقبہ پر بات ہو تو فنڈنگ روکی جا سکتی ہے۔ حتی کہ وہ اسرائیلی یہودی مورخ جو سرکار کے تاریخی بیانئیے کو چیلنج کرتے ہیں ان کی ریسرچ فنڈنگ بھی منسوخ ہو جاتی ہے۔ انیس سو چورانوے سے یہ قانون بھی لاگو ہے کہ نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا تاسیسی اعلان پڑھا جائے گا تاکہ ریاست کے صیہونیت سے تعلق کا اعادہ ہو سکے۔ انیس سو اسی میں فاونڈیشن آف لا ایکٹ نافذ ہوا۔اس کے تحت اگر عدالتیں موجودہ قانونی نظام میں کسی سوال کا تسلی بخش جواب تلاش نہ کر پائیں تو تورات پر مبنی ضابطہِ قانون ہلاخا سے رجوع کر سکتی ہیں۔یعنی شریعتِ موسوی کو اسرائیلی قانونی نظام میں مساوی درجہ حاصل ہے۔ مقدس مقامات کی دیکھ بھال کے قانون مجریہ انیس سو سڑسٹھ کے تحت وزارتِ مذہبی امور اسرائیلی حدود میں واقع مقدس مقامات کی دیکھ بھال کی ذمے دار ہے۔وزارت کی فہرست میں ایک سو پینتیس یہودی مقامات ہیں مگر ایک بھی غیر یہودی مقام شامل نہیں۔اس بابت انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم عدالہ کی درخواست عدالت نے مسترد کر دی۔ یہودی مذہبی امور کے قانون مجریہ انیس سو اکہتر کے تحت مذہبی اداروں اور قبرستانوں کی دیکھ بھال کے لیے وزارتِ مذہبی امور نے ہر یہودی بستی ، قصبے اور شہر میں مذہبی کونسلیں بنائی ہیں جنھیں سرکاری امداد ملتی ہے۔البتہ کسی غیر یہودی آبادی میں ایسی کوئی کونسل نہیں ۔ انیس سو سڑسٹھ میں غربِ اردن پر قبضے کے بعد مشرقی یروشلم کے اردگرد کی ساڑھے سترہ ہزار ایکڑ دیہی زمین یروشلم کی شہری حدود میں شامل کی گئی۔انیس سو اسی میں پارلیمنٹ نے یروشلم کیپیٹل ایکٹ منظور کیا جس کے تحت متحدہ یروشلم ( مغربی و مشرقی یروشلم ) اسرائیل کا دارالحکومت قرار پایا۔ باالفاظِ دیگر مقبوضہ یروشلم کو باقاعدہ اسرائیل میں شامل کر لیا گیا۔دو ہزار سترہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دعوی کو تسلیم کر لیا۔حالانکہ اوسلو سمجھوتے کے تحت مشرقی یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بننا تھا۔انیس سو اکیاسی میں ایک اور قانون کے تحت مقبوضہ گولان کو اسرائیل میں ضم کر لیا گیا۔ دو ہزار تین میں شہریت کے قانون میں خاندانی تعلق سے متعلق ترمیم کی گئی کہ اگر کسی شہری کی بیوی یا شوہر کا تعلق اسرائیل سے باہر ( بشمول مقبوضہ مغربی کنارہ اور غزہ ) سے ہے تو انھیں اسرائیل میں ایک ساتھ رہنے کے لیے خصوصی عارضی اجازت نامہ درکار ہو گا بشرطیکہ عورت کی عمر پچیس برس اور مرد کی عمر پینتیس برس سے کم نہ ہو۔
البتہ گیارہ برس تک کی عمر کے بچوں پر اس قانون کا اطلاق نہ ہو گا۔اس قانون کے سبب ہزاروں فلسطینی خاندان جن کے رشے ناتے مقبوضہ فلسطین میں ہیں مسلسل قانونی پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔اس قانون کی روح دراصل یہ ہے کہ منقسم خاندان تنگ آ کر ملک چھوڑ دیں۔ انیس سو اناسی میں ایمرجنسی قانون میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی بھی شہری کو غیر معینہ انتظامی حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔مگر ہر چھ ماہ بعد اس حراست کی عدالتی تجدید کرانا ہو گی۔اس قانون کے تحت ہزاروں فلسطینی نوجوان ، بوڑھے ، بچے اور خواتین غیر معینہ مدت کے لیے جیل میں ہیں۔ دو ہزار چھ میں قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے افراد ( یعنی فلسطینی ) کے لیے فوجداری قانون میں پہلے سے موجود تحفظات کو اور کم کر دیا گیا۔ترمیم سے پہلے گرفتار شخص کو اڑتالیس گھنٹے کے اندر جج کے سامنے پیش کرنا لازم تھا۔یہ مدت بڑھا کے چھیانوے گھنٹے ( چار دن ) کر دی گئی۔ ترمیم سے پہلے ملزم کو اڑتالیس گھنٹے کے اندر وکیل فراہم کیا جانا لازم تھا۔ ترمیم کے بعد ملزم کو اکیس دن تک وکیل تک رسائی سے محروم رکھا جا سکتا ہے۔ اس قانون میں انیس سو آٹھ میں مزید تبدیلی کی گئی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ( فوج اور پولیس ) تفتیشی عمل کا مکمل آڈیو وڈیو ریکارڈ رکھنے کے پابند نہیں۔چنانچہ تفتیش میں تشدد کے استعمال کا راستہ قانونی طور پر کھل گیا۔ دو ہزار گیارہ میں جیل قوانین میں مزید ترمیم کی گئی کہ وہ ملزم جو قومی سلامتی کے قانون کے تحت زیرِ حراست ہیں انھیں محکمہ جیل خانہ جات کی سفارش پر سپریم کورٹ وکیل تک رسائی کے حق سے غیر معینہ مدت تک محروم کر سکتی ہے اگر محکمہ یہ سمجھے کہ وکیل اس ملزم کا کوئی پیغام کسی دھشت گرد تنظیم تک پہنچا سکتا ہے۔اس قانون کا بنیادی مقصد فلسطینی قیدیوں کو وکیل اور سماعت سے زیادہ سے زیادہ مدت تک محروم رکھنا ہے۔ دو ہزار نو میں اقتصادی ترقی کے لیے ترجیحاتی علاقوں کے تعین کے قانون میں ترمیم کے بعد حکومت اپنی صوابدید پر کسی بھی آبادی کے لیے جتنا چاہے ترقیاتی فنڈ مخصوص کر سکتی ہے۔ چنانچہ پانچ سو تریپن یہودی قصبوں کے مقابلے میں عرب اسرائیلیوں کے صرف چار قصبوں کے لیے تعلیمی و ترقیاتی فنڈز مختص کیے گئے۔شہری حقوق کی تنظیم العدالہ نے جب اس ترمیم کو چیلنج کیا تو عدالت نے یہ درخواست اٹارنی جنرل کی اس یقین دہانی کے بعد مسترد کر دی کہ حکومت فنڈز کی فراہمی میں آیندہ امتیاز نہیں برتے گی۔ عملا یہ امتیازی پالیسی آج بھی برتی جا رہی ہے (جاری ہے)
٭٭٭