نااہل حکمرانوں اور پاگل جرنیلوں کی بیوقوفیوں کی وجہ سے ایک صوبہ نے فیڈریشن پر چڑھائی کر دی ہے جو ملکی سلامتی کے لئے خطرناک بھی ہے اور تشویشناک بھی۔خیبرپختونخواہ نے فیڈریشن پر چڑھائی کرکے دوسرے صوبوں کو ایک نیا راستہ دکھا دیا ہے۔ حکومتی اتحاد ،جیوڈیشری اور جرنیلوں نے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ھے۔ جنرل عاصم منیر وہ بندر ہے جس کے ہاتھ میں ماچس تھما دی گئی ہے۔ اسکی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ میں ماچس ملکی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں۔ عمران خان کی احتجاج کی کال پر پی ٹی آئی کے کارکن پورے پاکستان سے جوق در جوق اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جو حکمرانوں کو تنکوں کی طرح بہا لے جائینگے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ محسوس ھو رہا ھے کہ انہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا۔رینجرز، ایف سی ، پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کی اموات نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔ عوامی سیلاب کے سامنے یہ حکمران ایک تنکہ ثابت ھونگے ۔فارم 47 کی پیداوار حکمرانوں کو عزت سے استعفی دے کر گھر چلے جانا چاہیے۔ ملک مزید تباہی کا متحمل نہیں ھوسکتا۔ ملک میں نوجوان طبقہ سڑکوں پر ھے جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہے۔ حکومت کا کہنا ھے کہ پولیس اور رینجرز کے پاس اسلحہ نہیں ہے ۔پی ٹی آئی قیادت کا کہنا ہے کہ ہمارے کارکنان خالی ہاتھ ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنان کیسے زخمی ہوئے ۔رینجرز اور پولیس کے لوگ کیسے شہیدہوئے۔ آیا خفیہ ایجنسیاں یہ کارروائی تو نہیں کر رہیں؟۔اس وقت عقل اور ہوش کا دامن مدنظر رکھنا ھوگا تاکہ کوئی بڑا فساد نہ برپا ھوسکے۔البتہ پی ٹی آئی کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ وہ بڑی تعداد میں لوگوں کو اسلام آباد لانے میں کامیاب رہے۔ پولیس اور رینجرز ہجوم کے ہاتھوں پسپا نظر آئے۔ جنرل عاصم منیر اور موجودہ رجیم کو(زبان خلق کو نقارہ خدا)سمجھ کر دانشمندی کا ثبوت دینا چاہئے۔ موجودہ کرائسس کا حل صرف اور صرف اس رجیم کا استعفی ھے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سی آئی اے نے اپنے ایمبیسڈر کو کسی نازخوشگوار صورتحال کے پیش نظر ریڈ۔ لفٹ جاری کردیا ھے۔ کہ اپنے عملے کو یہاں سے کیسے نکالنا ھے۔ اس وقت عوام۔سارے راستے۔ عمران خانکی طرف جارہے ہیں۔ حکمران ضد میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے صورتحال بگڑ جائے۔ حالات کنٹرول سے باہر ھو ھائیں ۔ عوام تشدد کا راستہ اپنائیں۔ استعفی دیں اور گھر جائیں۔ بیساکھیوں اور جعلی مینڈٹ پر عمارت زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ عوام کا سیلاب انہیں خش و خشاک کیطرح بہا لے جائے گا۔ ان کے کردہ مظالم نے ان پر زمین تنگ کردی ھے۔ بھاگنے کے راست مسدود کردئیے ہیں۔ گیدڑ بھبکیوں سے عوامی سمندر نہ کبھی تھمتے دیکھا ھے اور نہ ایسا ھوگا۔ پی ٹی آئی کے لئے اب واپسی کا راستہ سیاسی خودکشی ھوگی۔ (ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق ) پی ٹی آئی قیادت کے لئے اس سے بہترین موقع کبھی نہیں آئے گا۔ انہیں ڈی چوک سے شہباز چریف اور عاصم منیر کے استعفیٰ کے ساتھ ہی اٹھنا چاہئے۔ مہنگائی ، ناانصافی اور ظلم وستم سے تنگ لوگوں کو انہیں بچانے کا راستہ مل چکاہے۔ اب ان کا دمادم مست قلندر ھوگا۔ باجی بلاول کی گزشتہ کچھ روز سے نہ آواز سنی ھے اور نہ ہی چیخ ۔ البتہ باجی بلاول کے بھائی اور زرداری کے لے پالک بیٹے محسن نقوی مظاہرین کو دھمکیاں دے کر صورتحال بگاڑنا چاہتے ہیں ۔ملٹری اسٹبلشمنٹ ھو یا ججز ۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا موجودہ حکمران اتحاد ۔ انکے گرے چہرے، جھکی نظریں۔ انکی کی کارکردگی انکے گناہوں،بداعمالیاں انکی کارکردگی کی نشاندھی کرتی ھے۔ ویگو ڈالے ، فوجی اشرافیہ نے اخلاقی گراوٹ کی انتہا کردی ھے۔ اس سے فوج کی کریڈیبلٹی متاثر ہوئی ہے۔ موجودہ دور میں ، بھٹو اور ضیا دور کی طرح ضلعی عدالتیں ،انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ریاستی بدمعاشی میں ملوث رہی ہیں۔ حکمرانوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج کے خوف سے پورے اسلام آباد، لاہور،موٹر ویز کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا ہے۔ ان کنٹینرز میں لوگوں کا قیمتی سامان ہے۔ بزنس کمیونٹی کا بزنس روز روز کی احتجاجی تحریکوں سے ٹھپ ہو گیاہے۔ فیصل آباد کی گارمینٹس انڈسٹری بند پڑی ہے۔ گوجرانوالہ کی سٹیل انڈسٹری بند ہے۔ صرف کرپشن انڈسڑی چل رہی ہے۔ جمہور دستور کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ قوم مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔ حکمران اتحاد کا ظلم اور ناانصافی برقرار ہے۔ فوجی اسٹبلشمنٹ کی فسطائیت ظلم و جبر کی تمام حدوں کو پار کرچکی ہے۔ آئی ایس آئی اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ملک میں دہشت گردی کی لہر پر قابو پانا چاہئے۔ فرقہ ورانہ کشیدگی دن بدن بڑھ رہی ھے۔ جو ملکی سالمیت کے لئے خطرناک ہے۔ پاراچنار میں وحشیانہ قتل عام کھلی درندگی ہے۔ ایسے کربناک واقعات سکیورٹی فورسیز ، بارڈر فورسیز، ایف سی اور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ سیکورٹی فورسیز کی موجودگی میں یہ اندہناک واقعہ انتہائی کربناک اور تشویشناک ہے۔جب سیکورٹی ادارے سیاسی معاملات میں گھسنے کی کوشش کرینگے تو انکی کارکردگی متاثر ہوگی۔ انہیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ کرم ایجنسی کے علاقہ مسے گزرنے والے مسافر ایک بڑے کانوائے کی شکل میں سفر کرتے ہیں۔جو سیکورٹی کے حصار میں رہتے ہیں۔سو اور پچاس بسوں کے قافلے ایک بڑے سیکورٹی کور میں گزرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ایسے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔ ہمیں گڈ اور بیڈ طالبان کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا۔مذہبی ہم اہنگی کے لئے علما اور عمائدین کا ایک ٹیبل پر بیٹھنا چاہئے۔ چوبیس نومبر کے احتجاج کے لئے حکومت اور اپوزیشن میں مخاذآرائی لمحہ فکریہ ہے۔ دہشتگرد اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پارہ چنار میں فرقہ ورانہ کشیدگی نے ہزاروں لوگوں کی جان لی ھے۔بار بار ایسے واقعات نے لوگ کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔بلوچستان، اور خیبر پختون خواہ میں ہر ماہ پندرہ سے بیس نوجوان آفیسرز شہید ہورہے ہیں۔ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔عام لوگوں اور سیکورٹی اداروں پر حملے عام معمول ہے۔ پورے ملک میں ان دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی کاروائی کی ضرورت ہے۔ انہیں چوکوں اور چوراہوں پر سرعام لٹکانا چاہئے۔ ان دہشت گردوں میں نہ ہی انسانیت ھے اور نہ ہی کسی مذہب سے تعلق۔ ناحق اور معصوم لوگوں پر قاتلانہ، وحشیانہ حملے کسی مذہب میں بھی جائز نہیں ۔ ان درندوں کا قلع قمع ملکی بقا کی لئے اشد ضروری ہے۔خوشامدی علما فرمائشی فتوے جاری کرنے پر معمور ہیں۔ اگر ان علما کو خوف خداہو تو فرمائشی فتووں، مسلکی منافرت سے باہر آئیں ۔ ملک اس وقت جس سیاسی افراتفری میں گھیرا ہے اسکا حل صرف دانشمندی، ہوشمندی اور سنجیدی سے معاملات کو حل کرنا ہے۔ سیاست میں دشمنی اور عدم برداشت نے ایک لاوا بنا دیا ہے۔ جو پی ٹی آئی کے طرز سیاست سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اسے پی ٹی آئی کی کی سوشل میڈیا ٹیم آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھتی ہے اور جو پی ٹی آئی یا عمران کی حمایت میں کوئی جملہ کہہ دے اسے ملک دشمن گردانا جاتا ہے۔ فوجی اشرافیہ ، اسٹبلشمنٹ اور موجودہ رجیم نے ملک کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ گذشتہ روز پارہ چنار میں فائرنگ کا بدترین واقعہ رونما ہوا جس میں تقریبا ایک سو افراد کو بسوں میں بھون دیا گیا۔ چالیس اموات موقع پر ہوگئیں ، یہ ایک وحشیانہ فعل ہے ۔ اس میں ملوث لوگ انسان نہیں حیوان ہے۔ پارہ چنار لو کرم کے علاقہ میں افسوسناک واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پاکستان میں دہشت ووحشت کے ایسے سینکڑوں واقعات ملیں گے۔جہاں معصوم۔ لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتاہے۔ملک میں سو یا پچاس افراد کا قتل ایک عام واقعہ ہے۔ انسان بھیڑ بکریاں ہیں۔ حکومتی رٹ نہ ھونے کی وجہ سے عوام غیر محفوظ ہیں اور دہشت گردوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے پوری قوم کو ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ جنرل عاصم نے قوم کو منقسم کردیا ہے۔ یہ آرمی چیف جنرل یحیٰ کی فوٹو کاپی ہے جس نے فسطائیت کی انتہا کردی جس نے نوجوانوں کو موجودہ نظام، موجودہ، رجیم، موجودہ سسٹم کا باغی کردیا۔ عاصم منیر کے کرتوتوں کی وجہ سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت بڑھی ھے۔ انکے ظلم و بربرئیت کو اوورسیز میں ناپسندیدگی سے دیکھا جارہا ھے۔ویگو ڈالے والوں کی دہش و وحشت نے عوام میں انکے ہر طرف نفرت پیدا کی ھے۔پی ٹی آئی کے مظاہرین کے خوف سے ویگو ڈالے چھپ گئے ہیں۔ انکا برا وقت آنپنچا ھے۔ خصوصا خواجہ آصف ، عطا تاڑر ، رانا ثنااللہ آئیندہ عوامی غضب کا شکار ھونگے۔ انکی سیاست کے تابوت میں آخری کیل پیوست ہوچکی ہے۔ آج سابقہ چیف جسٹس، سابقہ آرمی چیفس اور سیاسی لٹیرے کسی پبلک مقام پر آزادانہ گھوم نہیں سکتے ۔انکی فسطائیت نے انہیں زندہ درگور کردیا ھے۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے بیرون ملک جیل جیسی سبق آموز زندگی گزار رہے ہیں ۔ قارئین!۔ اللہ رب العزت سے ملک کی سلامتی کی دعا کریں۔ اللہ جل شانہ اسکی خفاظت فرمائے۔ ظالموں ،چوروں ، سفاک درندوں سے جان چھڑائے اور قومی مجرموں کو نشان عبرت بنائے ۔ آئین پامال کرنے والوں اور اسلامی تشخص تباہ کرنے والوں ۔ اخلاقی اقدار اور دینی نظریات تباہ کرنے والوں کو نابود فرمائے ۔آمین ۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو مرو اور مارو کی پالیسی ترک کرکے دانشمندی،اور ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، نوجوانوں کے جذبات کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ انکی اخلاقی تربیت کرنا ہوگی۔میں نہ مانوں کی جارحانہ پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ انکے اندر سے متشدد ذہنیت ،بداخلاق، بدتہذیب اور گالی گلوچ بریگیڈ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔وگرنہ پی ٹی آئی ماضی کی ایم کیو ایم ثابت ہوگی۔ جس نے پڑھی لکھی نسل کے ہاتھ میں قلم کی جگہ اسلحہ تھما دیا تھا۔یاد رہے! کہ پٹواریوں، جیالوں اور فضل الرحمن نے چار دہائیاں اقتدار کے مزے لئے ہیں ۔ اب انکا سورج غروب ہو چکاہے۔ فرسودہ سوچ ، عیار اشرافیہ اور روایتی خانوادوں کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ عوام کے ذہنوں سے بوٹوں کا خوف ختم ہوچکا ہے۔اگر اسٹبلشمنٹ نے مزید مداخلت نہ کی تو مستقبل میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی انتخابی میدان میں ایک دوسرے کی حریف ہونگی۔
٭٭٭