امدادی نشہ…!!!

0
212
ماجد جرال
ماجد جرال

آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو آپ کو ان کے ترقی کرنے کی وجہ بخوبی سمجھ آ جائے گی، ترقی یافتہ اقوام کو وقت پر سمجھا جاتا ہے کہ انھیں مستقبل کے لیے کیا کرنا ہے، جس آفت سے ان کا ایک بار واسطہ پڑ جائے اس سے مستقبل میں نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ کرونا وبا ہمارے سامنے اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے، جیسے ہی کرونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا، ترقی یافتہ ممالک نے اپنی تمام تر توانائیاں اس کے سدباب پر صرف کر دی، اس کا علاج دریافت کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر دیئے گئے، اپنے شہریوں کو اس بات سے مستقبل میں محفوظ رکھنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو بھی مفت میں ویکسی نیشن فراہم کی گئی۔ امیر، غریب بلاتفریق تمام شہریوں کو مفت ویکسی نیشن کی گئی، اس وبا سے بچنے کے لیے تاحال ریسرچ جاری ہے۔ مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک یہ حکمران سوچ کے اس بلندی کو نہ جانے کب پہنچیں گے، یہ بات قابل قبول ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے بعد اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ آفتوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، مگر ایک آفت سے ہر سال آپ کا واسطہ پڑتا ہو تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر ہر سال کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال سیلاب جیسی قدرتی آفت ہزاروں گھروں کو تہس نہس کر کے گزر جاتی ہے، مگر آج تک ایسا نہیں ہوا کہ حکومتی سطح پر کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا ہوں جو اس قدرتی آفت کے اثرات کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر ثابت ہو، تاحال صورتحال یہ ہے کہ سیلابی ریلوں کی شدت ہی کچھ مہربانی کر جائے تو نقصان کم ہوتا ہے۔
مگر ہر سال ہم سیلاب کی تباہ کاریوں پر ماتم کرتے ہیں نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر نا حکومتوں نے کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی عوام کی جانب سے مطالبات سامنے آئے۔
یوں لگتا ہے جیسے ہمیں امداد کھانے کی لت پڑچکی ہے، پاکستان میں سیلاب جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے تمام ادارے صرف سیلاب کے دنوں میں آپ کو متحرک نظر آئیں گے، متحرک سے مراد یہ کہ امداد وصول کرتے ہوئے نظر آئیں گے، عملی طور پر عام دنوں میں یہ ادارے کیوں ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کرتے ہیں جو ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے موثر ثابت ہو جن سے ہر سال پاکستانی عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن ہم نے یہ اقدام اُٹھا لیے، اس دن بیرونی امداد نہیں آئے گی اور ہمیں تو امداد کھانے کا ہی لطف آتا ہے، ہمارے حکمران کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا یہ امدادی نشہ ختم ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here