نیویارک (پاکستان نیوز) نیویارک سٹی نے روزویلٹ ہوٹل اسائلم سینٹر بند کرنے کا اعلان کر دیا، میئر ایڈمز کا کہنا ہے کہ یہ مرکز مئی 2023 میں کھولا گیا تھا اور تین سالہ اسائلم سیکر بحران کے دوران 173,000 سے زائد افراد کی رجسٹریشن کر چکا ہے۔ اب اسائلم سیکرز کے لیے خدمات دیگر مراکز میں ضم کر دی جائیں گی۔ نیویارک نے 2 لاکھ بتیس ہزار سے زائد پناہ گزینوں کو مدد فراہم کی، اور اب انتظامیہ کے اس نئے فیصلہ سے لاکھوں ڈالر کی بچت ہوگی۔ ایڈمز نے کہا اس حکمت عملی کے تحت، 53 دیگر ایمرجنسی شیلٹر مراکز بھی جون 2025 تک بند کر دیے جائیں گے۔ شہر میں پناہ گزینوں کی تعداد 69 ہزار سے کم ہو کر 45 ہزار رہ گئی ہے۔ شہر کے اسائلم ایپلیکیشن ہیلپ سینٹر نے 98 ہزار سے زائد افراد کو ورک پرمٹ اور عارضی تحفظ کی درخواستوں میں مدد دی، جبکہ 53,200 سے زائد افراد کو اپنی پسندیدہ منزلوں پر پہنچانے کے لیے ٹکٹس فراہم کیے گئے۔ میئر نے کہا یہ اقدامات اسائلم سیکرز کو خود کفیل بنانے اور نیویارک کے ٹیکس دہندگان کے لیے مالی بچت کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے ہیں۔یاد رہے کہ نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کا افتتاح ایک صدی قبل 23 ستمبر 1924ء کو ہوا تھا، اس ہوٹل کا نام امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر رکھا گیا تھا۔اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی رقم صرف ہوئی تھی۔روزویلٹ ہوٹل نیویارک کے مرکز منہاٹن کی 45 ویں اور 46 ویں اسٹریٹ کے درمیان واقع ہے جو نیویارک کے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن سے صرف ایک بلاک دور ہے۔یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے مذکورہ اسٹیشن سے بھی جڑا ہوا ہے، یہاں سے ٹائمز اسکوائر اور براڈ وے جانے میں صرف 5 منٹ لگتے ہیں۔1979ء میں قومی ایئر لائن نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس ہوٹل کو لیز پر حاصل کیا۔اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ 20 برس بعد اگر قومی ایئر لائن چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔1999ء میں قومی ایئر لائن نے اس شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل کی عمارت کو 3 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز میں خریدا، تاہم قومی ایئر لائن کو ہوٹل کی عمارت خریدنے سے پہلے ہوٹل کے اس وقت کے مالک پال ملسٹین کے ساتھ ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی، پال ملسٹین کے مطابق ہوٹل کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔2005ء میں قومی ایئر لائن نے سعودی پرنس کے ساتھ ایک سودے میں روزویلٹ کے 99 فیصد شیئر 36.4 ملین ڈالرز میں خریدے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف 1 فیصد شیئر ہی باقی رہ گئے۔2007ء میں قومی ایئر لائن نے ہوٹل کی مرمت اور از سرِ نو تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جس پر 6 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کا خرچہ آیا۔اس کے بعد قومی ایئرلائن نے اپنے مالی خساروں کو پورا کرنے کے ہوٹل کو بیچنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020ء میں جب کورونا کی وبائ پھیلی تو پاکستانی حکومت نے ہوٹل کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا، اس وقت پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی خواجہ سعد رفیق کے مطابق روزویلٹ ہوٹل بند ہونے کے بعد اس کی مینٹیننس پر پاکستان کا بہت خرچہ ہو رہا تھا۔2 سال پہلے 2023ء میں جب ہزاروں تارکینِ وطن نیویارک میں پناہ کے انتظار میں فٹ پاتھوں پر بیٹھے نظر آتے تھے، جس سے یہ امریکا میں امیگریشن کے تنازع کا مرکز بن گیا تھا، اس وقت نیویارک سٹی گورنمنٹ کا ہوٹل یونین کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس کی منظوری پاکستان اکنامک کمیٹی (ای سی سی) نے مئی 2023ء میں دی اور 3 سال کے لیے ہوٹل کے 1025 کمرے لیز پر دے دیے گئے۔خواجہ سعد رفیق کے مطابق یہ امریکی حکومت کی پالیسی تھی، ہم نے ان پر دباؤ نہیں ڈالا تھا کہ پاکستانی ہوٹل میں تارکینِ وطن کو ٹھہراؤ، نیویارک کی انتظامیہ نے خود ہم سے رابطہ کیا، ہمیں اچھی بزنس ڈیل ملی لہٰذا ہم نے ہامی بھر لی، نیویارک کی حکومت نے تارکینِ وطن کے لیے اس وقت 80 سے زائد ہوٹل لیے اور ہمارا ہوٹل بھی ان میں سے 1 تھا۔اب ٹرمپ کے قریبی ساتھی و بھارتی نڑاد ویویک راماسوامی کی اس معاہدے پر تنقید کے بعد امریکی حکومت نے پاکستانی حکومت سے کیا گیا معاہدہ ختم کر دیا۔نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز نے مین ہٹن کے اس تاریخی روزویلٹ ہوٹل کو جون 2025ء سے پناہ گزینوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔